84۔ مری جاں آزمانا گو تمہیں کیا کیا نہ آتا ہے

ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ259۔261

84۔ مری جاں آزمانا گو تمہیں کیا کیا نہ
آتا ہے

مری جاں آزمانا گو تمہیں کیا کیا نہ
آتا ہے
ہمیں بھی پیش کرنا نفس کا نذرانہ آتا
ہے
خرد مندوں کے ہاتھوں میں نظر آنے لگے
پتھر
اِدھر پھر جھومتا گاتا کوئی دیوانہ
آتا ہے
عجب کہرام مچ جاتا ہے اہل دل کی محفل
میں
شمع کی لَو پہ رقصاں جب کوئی پروانہ
آتا ہے
جو  پائے تو اس کو روک لے تو واعظا بڑھ کے
وہ آتا ہے مرے گھر اور بے باکانہ آتا
ہے
رقیبوں کو مرے میری وجہ سے مل گئی شہرت
کہ میری داستاں میں اُن کا بھی افسانہ
آتا ہے
وہ نظریں پاؤں میں میرے سلاسل ڈال دیتی
ہیں
مجھے جب بھی خیالِ جرأتِ رندانہ آتا
ہے
ذرا سوچو ہماری محفلوں کا رنگ کیا ہو
گا
تڑپنا جانتے ہیں ہم اُسے تڑپانا آتا
ہے
اُٹھاتا ناز ہے کہ خود بھی مردِ عشق
پیشہ ہے
وہ دلبر بھی ہے اُس کو ناز بھی فرمانا
آتا ہے
اُسے مل کر نئے جذبے جنم لیتے ہیں سینے
میں
کہ جنبش سے لبوں کی اُس کو دل گرمانا
آتا ہے
یہ کیا ممکن نہیں کہ دل کو ہی کعبہ
بنا ڈالیں
حرم کی رہ میں تو ہر گام پہ   بت خانہ آتا ہے
نہ میری خامیوں کا تم مجھے احساس دلواؤ
مجھے کرنی پہ اپنی آپ بھی شرمانا آتا
ہے
جو نادم ہو اُسی پہ تو نگاہِ لطف پڑتی
ہے
وہی یاں فیض پاتا ہے جسے پچھتانا آتا
ہے
چلے گا دورِ ساغر جامِ مَے گردش میں
آئے گا
خوشا! یارانِ محفل ساقی میخانہ آتا
ہے
مجھے کیا کجکلاہوں سے کہ ہے شاہِ دل
و جانم
جو اپنائے ہوئے اندازِ درویشانہ آتا
ہے
مجھے اب بادہ و جام و سُبو کی کیا ضرورت
ہے
مِرا محبوب آنکھوں میں لئے خمخانہ آتا
ہے
عجب رندوں کی محفل ہے خوشی سے جھوم
جاتے ہیں
کسی نوآمدہ کے ہاتھ جب پیمانہ آتا ہے
یہ دنیا جال سے اپنے نکلنے ہی نہیں
دیتی
خیالِ بے ثباتی تو ہمیں روزانہ آتا
ہے
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م صاحبہ سملہا اللہ

اپنا تبصرہ بھیجیں