
101۔ بعض لوگ دنیا و مافیہا سے ناراض رہتے ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں
”جو دل پہ گذرتی ہے رقم کرتے
رہیں گے”
رہیں گے”
ہے
دراز دستِ دعا مرا صفحہ299۔302
دراز دستِ دعا مرا صفحہ299۔302
101۔ بعض لوگ دنیا و مافیہا سے ناراض رہتے
ہیں ایسے لوگوں کی خدمت میں
فرض کیجیے عرصۂ کون و مکاں اچھا نہ
ہو
ہو
یہ زمیں اچھی نہ ہو یہ آسماں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے کہ پھولوں ہی میں نہ ہو
رنگ و بو
رنگ و بو
فرض کر لیجئے نظامِ گلستاں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے چمن برقِ تپاں کی زد میں
ہو
ہو
شاخِ گل جھلسی ہوئی ہو آشیاں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے کہ مٹی میں ہی زرخیزی
نہ ہو
نہ ہو
فرض کر لیجئے چمن کا باغباں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے کہ ہوں سب کے ہی گھر ٹوٹے
ہوئے
ہوئے
فرض کر لیں آپکا ہی بس مکاں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے کہ اہلِ کارواں ہوں بے
شعور
شعور
فرض کر لیجئے کہ میرِ کارواں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے شرابِ ناب ہی بے کیف ہو
فرض کر لیجئے کہ خود پیرِ مغاں اچھا
نہ ہو
نہ ہو
فرض کر لیجئے خلوصِ دوستاں میں ہو کمی
فرض کر لیجئے سلوکِ دوستاں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے کہ ہوں الفاظ کے نشتر
ہی تیز
ہی تیز
فرض کر لیجئے کہ اندازِ بیاں اچھا نہ
ہو
ہو
فرض کر لیجئے نہ ہو ہمدرد دنیا میں
کوئی
کوئی
فرض کر لیجئے کہ کوئی رازداں اچھا نہ
ہو
ہو
تیری نظروں سے اگر دیکھوں تو اے کوتاہ
چشم
چشم
یہ بھی ممکن ہے کہ کُل کارِ جہاں اچھا
نہ ہو
نہ ہو
تیرے تو نزدیک دنیا میں کوئی خوبی نہیں
خوبرویوں میں کوئی اندازِ محبوبی نہیں
اے گرفتہ دِل مجھے بس آج تو اتنا بتا
کیا بھری دنیا میں نہ کوئی بھی شے بھائی
تجھے
تجھے
چہچہے بھی کیا عنادل کے سنائی نہ دیئے
کیا نظر آئی نہ پھولوں میں بھی رعنائی
تجھے
تجھے
کیا شریکِ عیش بھی اس نے کبھی تجھ کو
کیا
کیا
یا زمانے نے فقط تکلیف پہنچائی تجھے
دوستوں سے کیا تجھے دردِ تغافل ہی مِلا
یا ملی بھی ہے کبھی اُن سے پذیرائی
تجھے
تجھے
کیا تیرے در پر کبھی خوشیوں نے دستک
ہی نہ دی
ہی نہ دی
یا غمِ ہستی کی دنیا ہی پسند آئی تجھے
اے گلہ مندِ زمانہ کیا کبھی سوچا بھی
ہے
ہے
سرد ِمہری خود تیری اِس موڑ پر لائی
تجھے
تجھے
دوستوں کو ہر جگہ بدنام تو کرتا رہا
بھولنے پاتی نہیں پر اپنی رسوائی تجھے
بھول جاتا ہے گھنے پیڑوں کی چھاؤں تو
مگر
مگر
یاد رہ جاتی ہے اپنی آبلہ پائی تجھے
تیری پیشانی کی شکنوں سے یہ ہوتا ہے
عیاں
عیاں
محفلِ یاراں کی رونق راس نہ آئی تجھے
آپ ہی اپنا تماشا تو نے دِکھلایا اگر
تو نظر آئے گی دنیا بھی تماشائی تجھے
اے اسیرِ ذات اپنے نفس کا بندہ ہے تو
ڈس رہی ہے اِس لئے یہ تیری تنہائی تجھے
کھول کر آنکھیں کبھی روشن اجالوں کو
بھی دیکھ
بھی دیکھ
تب نظر آئے گی اس دنیا کی زیبائی تجھے
ذات سے باہر نکل کے ماورائے ذات دیکھ
نغمۂ کُن کی صدائیں سُن حسیں آیات دیکھ
کلام صاحبزادی امۃالقدوس بیگم م
صاحبہ سملہا اللہ
صاحبہ سملہا اللہ