109۔ رنگ پررنگ

بخار
دل صفحہ234۔236

109۔
رنگ پررنگ

”پیغامِ صلح” میں
ایک نظم چھپی تھی۔ مندرجہ ذیل نظم اُس کے جواب میں الفضل 18مارچ 1943ء میں شائع ہوئی۔
ظاہر ہوا ہے آپ کا لاہوریانہ رنگ
کھیلاہے خوب آپ نے یہ ہولیانہ رنگ1؎
ناموں پہ تُم نہ جاناکہ دعوے توہیچ
ہیں
صادق بھی بعض رکھتے ہیں کچھ کاذِبانہ
رنگ
بے وزن تین شعر ہیں اس نظم میں جناب
اچھا ہے میرے دوست ترا ماعرانہ رنگ
انیسواں’ اٹھارواں اور آخری ہیں شعر
واضح ہے جن میں آپ کا یہ قاتلانہ رنگ
اللہ رے تیری شیخیاں اور لَن تَرانیاں
پِیری ہے اور پِیری میں یہ مومِنانہ
رنگ
چھ ماہ پہلے گالیاں، اب یوں خوشامدیں
رنگت ہے یہ پولیس کی؟ یا تائبانہ رنگ
”صالح” تو ہے درست مگر ”تھے” پہ غور کر
کیوں ماضیانہ رنگ بنا حالیانہ رنگ؟
مُنشی کو مُنشی گر کہا، کیا حرج ہو
گیا!
جب معرِفت کا اُس نے دِکھایا ذرا نہ
رنگ
تصنیفوں میں دکھاؤ حقائِق اگر جدید
تب بندہ مان لے گا، کہ ہے عارِفانہ
رنگ
بتلاؤ تو بنائے نئے کتنے احمدی؟
یا بیچنا کتابیں ہے بس غازیانہ رنگ
مذہب ہی یاں عداوتِ محمودؔ جس کا ہو
بھیڑوں کا اُس کی پھر نہ ہو کیوں بھیڑیانہ
رنگ
بُہتان اور طَعن ہے پیغامیت کی جڑ
کچھ فاخرانہ رنگ ہے کچھ عامِیانہ رنگ
تُم کو زہے نصیب بِشَپ کا قلم ملا
جس میں ہوائے نَفس نے کیا کیا بھرا
نہ رنگ
دجّال کا ایجنٹ چلاتا ہے جس سے کام
دکھلایا تُم نے اُس سے وہی ساحِرانہ
رنگ
مارا ہے حُبِّ جاہ نے تیرے صنم کو بھی
بچ جاتا گر وہ رکھتا ذرا عاشِقانہ رنگ
دُشمن تھا اہلِ بیت کا، مشہور تھا یزید
اس کا تو آ رہا تھا نظر کوفیانہ رنگ
کچھ دوست بھی بُلا لئے اور حاوی ہو
گئے
جتلانے انجمن پہ لگے مالِکانہ رنگ
پر قادیاں نے خوب نکالا یزید کو
حق نے عطا کیا ہے جسے مُخرِجانہ رنگ
بلوے کئے، فساد کئے، شورشیں بھی کیں
دکھلاتے ”نور دِیں” کو رہے باغیانہ
رنگ
شرمندہ ہو کہ توبہ بھی کی بیعتیں بھی
کیں
مخفی کیا نِفاق کو لیکن گیا نہ رنگ
آخر کو چودہ مارچ کو بھانڈا گیا وہ
پُھوٹ!
اُس دن سے پھر نہ رُوپ ہی باقی رہا
نہ رنگ
1؎ ان ایام میں ہولی کاتہوارمنایا جا
رہاتھاجس میں ہندوایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔
(2)
جس بزم میں ہو بیعت و جنت کا لین دین
کیا حرج ہے کہ اُس کو کہیں تاجِرانہ
رنگ
صدیوں تلک تو اُونچے ہی اُونچے اُڑیں
گے ہم
بدلے گا اتنا جلد نہ ہر گز زمانہ رنگ
آنکھوں کو کھول، دیکھ ذرا اے میرے عزیز
اب تک ہے قادیاںؔ کا وہی فاتحانہ رنگ
باقی جو گالیاں ہیں، نہیں اُن کا کچھ
جواب
ہم پر تو یار! کھلتا نہیں سُوقیانہ
رنگ
”اَے دل! تو نیز خاطرِ ایناں نگاہ دار”
احمدؑ کا چونکہ ان میں ہے کچھ ناقِلانہ
رنگ

اپنا تبصرہ بھیجیں