52 ایک تحریک پر بھائیوں کی یاد میں

درعدن
ایڈیشن 2008صفحہ100۔101

52 ایک تحریک پر بھائیوں کی یاد میں

حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے اپنی ناسازی طبع کے باوجود اپنا تازہ منظوم
کلام اور اس سے متعلق ایک بیش قیمت نوٹ الفضل میں اشاعت کی غرض سے عنایت فرمایا ہے
جو ذیل میں ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے ۔
نوٹ: ایک بہت پرانی دوست جو قریبی عزیز ، میرے میاں مرحوم کی بھتیجی ہیں ان کے
خط میں ایک مصرعہ آخری لکھا تھا پھر چار شعر ہو گئے انہوں نے لکھا تھاعرصہ سے آپ کے
خطوط میں وہ بات نہیں رہی نہ وہ مزاح کا رنگ ، نہ چمک ، نہ شوخی، نہ وہ مزے کی باتیں۔کیا
ہوا !کیا بات ہے؟ان کی تحریر نے وجہ کی یاد دلا دی اور اس وقت بھائیوں کی یاد خصوصاً
سب سے زیادہ محبت کرنے والے بہت خیال رکھنے والے حضرت بڑے بھائی صاحبؓ( حضرت مصلح موعود)
کی یاد آئی۔ان کا ہر بات دل کی کرنا، پرانی باتیں سننا اور سنانا یاد آگیا،گو تینوں
بھائیوں کی یہی کیفیت تھی بہت محبت کی، بہت قدر کی، بہت ہمدردی پیار سب سے ہی سب کی
یاد نے افسردہ کر دیا۔ خصوصا اس خاص وجود کا خاص پیار بچپن سے اب تک جن کاگود میں اٹھانا
بھی یاد آتا ہے آج تک۔باہر لاہور وغیرہ گاہے میرے بچپن میں بھی جاتے تو کبھی کھلونے
اور کبھی اچھے اچھے کریکرز جن میں سے پیاری پیاری چیزیں نکلتی تھیں ،لاتے۔ہر شکایت
، ہر بات میں ان کے پاس یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس کرتی تھی۔گویا یہ بھی
باپ اور بھائی کی محبت کا مجموعہ تھے اور بڑی ہوئی تو خاص دوست کی صورت بھی شامل ہوئی
۔ اللہ تعالی میرے بھائیوں کے درجات بلندسے بلند فرمائے۔ ان کی اولادیں سلامت رہیں،
نیک رہیں، سچے دل سے خادم دین رہیں، اور ایسی ہی نسلیں چلیں اور ہمیشہ میری دعا رہتی
ہے کہ ہم سب کی اولادیں در اولادیں اور نسلیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی
فرزند جلیل کی روحانی اور جسمانی اولادیں ہیں اسی نام سے منسوب حقیقی رنگ میں ہونے
اور روحانی اور جسمانی اولاد کہلانے کے ہمیشہ قابل رہیں ۔میرے مولا! تیرا دامن رحمت
کبھی بھی ہاتھوں سے نہ چھوٹے ،اور ہم کو بھی اور ہماری سب اولادوں کو ہماری نسلوں کو
تا قیامت اپنے سچے عاشق رسول کریمؐ کے عاشق حضرت مسیح موعودؑ کے فدائی بنائے رکھنا
۔ ہم جسمانی اور روحانی اولاد کہلانے کے حقیقی معنوں میں قابل رہیں۔ تیرے در سے کبھی
دھتکارے نہ جائیں ۔ یہی دعا آپ کی سب روحانی نسلوں کے لئے بھی ہے ۔میرے قریب و مجیب
، نعم المجیب ! ہم تیرے ہی ہو جائیں اور تو ہمارا ہو جائے۔ تیری رضا ، تیری لازوال
محبت کی دولت کا خزانہ نصیب ہو ۔آمین۔والسلام ‘ مبارکہ
جو مجھے چاہتے تھے ، چاہ کو پہچانتے
تھے
ان کی فرقت کی وہ تنویر کہاں سے لاؤں؟
کاغذی عکس بھی ہیں دل پہ مرے نقش مگر
بولتی ہنستی وہ تصویر کہاں سے لاؤں؟
وہ کہاں پیار، وہ آپس میں دلوں کی باتیں
آہ اس خواب کی تعبیر کہاں سے لاؤں؟
دلِ پژمردہ میں باقی نہ رہی زندہ دلی
اب میں وہ شوخئ تحریر کہاں سے لاؤں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں