17۔ غزل آپؐ کے لئے

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ46۔48

17۔ غزل آپؐ کے لئے

گلشن میں پھول ، باغوں میں پھل آپؐ
کے لئے
جھیلوں پہ کھل رہے ہیں کنول آپؐ کے
لئے
میری بھی آرزو ہے ، اِجازت ملے تو میں
اَشکوں سے اِک پروؤں غزل آپؐ کے لئے
مژگاں بنیں ،حکایتِ دل کے لئے قلم
ہو رَوشنائی، آنکھوں کا جل آپؐ کے لئے
اِن آنسوؤں کو چرنوں پہ گرنے کا اِذن
ہو
آنکھوں میں جو رہے ہیں مچل آپؐ کے لئے
دِل آپؐ کا ہے ، آپؐ کی جان ، آپؐ کا
بدن
غم بھی لگا ہے جان گسل آپؐ کے لئے
میں آپؐ ہی کا ہوں ، وہ مری زندگی نہیں
جس زندگی کے آج نہ کل آپؐ کے لئے
گو آ رہی ہے میرے ہی گیتوں کی بازگشت
نغمہ سرا ہیں دَشت و جبل آپؐ کے لئے
ہر لمحۂ فراق ہے عمر ِدراز ِغم
گزرا نہ چین سے کوئی پل آپؐ کے لئے
آ جائیے کہ سکھیاں یہ مل مل کے گائیں
گیت
موسم گئے ہیں کتنے بدل آپؐ کے لئے
ہم جیسوں کے بھی دید کے سامان ہو گئے
ظاہر ہوا تھا حسن ازل آپؐ کے لئے
صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم
یہ تین شعر اصل نعتیہ کلام کا حصہ نہیں اور غزل کی روایت کے مطابق قافیوں کی رعایت
سے الگ مضمون میں الجھ گئے ہیں۔ اس لئے ان کو نعتیہ کلام کا حصہ نہ سمجھا جائے۔
اب حسرتیں بسی ہیں وہاں ، آرزوؤں نے
خوابوں میں جو بنائے محل آپ کے لئے
گرہیں تمام کھل گئیں جز آرزوئے وصل
رکھ چھوڑا ہے اس عقدے کا حل آپ کے لئے
کل آنے کا جو وعدہ تھا ، آ کر تو دیکھتے
تڑپا تھا کوئی کس طرح کل آپ کے لئے
جلسہ سالانہ یوکے ١٩٨٩ء

اپنا تبصرہ بھیجیں