27۔ مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو پہنچے

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ71۔73

27۔ مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو
پہنچے

کبھی اذن ہو تو عاشق در یار تک تو پہنچے
یہ ذرا سی اک نگارش ہے ، نگار تک تو
پہنچے
دلِ بے قرار قابو سے نکل چکا ہے، یا
ربّ
یہ نگاہ رکھ کہ پاگل سَرِدار تک تو
پہنچے
جو گلاب کے کٹوروں میں شرابِ ناب بھر
دے
وہ نسیمِ آہ ، پھولوں کے نکھار تک تو
پہنچے
کچھ عجب نہیں کہ کانٹوں کو بھی پھول
پھل عطا ہوں
مری چاہ کی حلاوت رگ خار تک تو پہنچے
یہ محبتوں کا لشکر جو کرے گا فتحِ خیبر
ذرا تیرے بغض و نفرت کے حصار تک تو
پہنچے
مجھے تیری ہی قسم ہے کہ دوبارہ جی اُٹھوں
گا
ترا نفخِ رُوح میرے دلِ زار تک تو پہنچے
جو نہیں شمار ان میں تو غرابِ پر شکستہ
ترے پاک صاف بگلوں کی قطار تک تو پہنچے
تری بے حساب بخشِش کی گلی گلی نِدا
دوں
یہ نوید تیرے چاکر گنہگار تک تو پہنچے
یہ شجر خزاں رسیدہ ہے مجھے عزیز یا
ربّ
یہ اک اور وصل تازہ کی بہار تک تو پہنچے
جنہیں اپنی حبل ِجاں میں نہ ملا سراغ
تیرا
وہ خود اپنی ہی انا کے بت ِنار تک تو
پہنچے
کسے فکر ِعاقبت ہے ، انہیں بس یہی بہت
ہے
کہ رہینِ مرگ ‘داتا’ کے مزار تک تو
پہنچے
ہے عوام کے گناہوں کا بھی بوجھ اس پہ
بھاری
یہ خبر کسی طریقے سے حمار تک تو پہنچے
یہ خبر ہے گرم یاربّ کہ سوار خواہد
آمد
کروں نقد ِجاں نچھاور ، مرے دار تک
تو پہنچے
وہ جواں برق پا ہے ، وہ جمیل و دلربا
ہے
مرا نالہ اس کے قدموں کے غبار تک تو
پہنچے
جلسہ سالانہ یو کے ١٩٩٢ء

اپنا تبصرہ بھیجیں