66۔ رنج تنہائی

کلام
طاہر ایڈیشن 2004صفحہ154

66۔ رنج تنہائی

اف یہ تنہائی تری الفت کے مٹ جانے کے
بعد
تیری فرقت میں تو اتنا رنجِ تنہائی
نہ تھا
اب بِتا کر عمر ہوش آئی تو یہ عقدہ
کھلا
عشق ہی پاگل تھا ورنہ میں تو سودائی
نہ تھا
کیسی کیسی شرم تھی ، کیا کیا حیا تھی
پردہ دار
پیار جب معصوم تھا اور وجہِ رسوائی
نہ تھا
وائے پیری کی پشیمانی ، جوانی کے جنون
خود سے میں شرمندہ تھا ، مجھ سے مرا
آئینہ تھا

اپنا تبصرہ بھیجیں