4۔ یادایام کہ تھے ہند پہ اندھیر کے سال

کلام
محمود صفحہ4۔7

یادایام کہ تھے ہند پہ اندھیر کے سال

یادایام کہ تھے ہند پہ اندھیر کے سال
ہر گلی کوچہ پہ ہر شہر پہ آیا تھا
وبال
روزِ روشن میں لُٹا کرتے تھے لوگوں
کے مال
دل میں اللہ کا تھا خوف نہ حاکم کا
خیال
ہر طرف شور و فغاں کی ہی صدا آتی تھی
سخت سے سخت دلوں کو بھی جو تڑپاتی تھی
رحم کرنا تو کجا ظلم ہوا تھا پیشہ
لوگ بھولے تھے کہ ہے نام مروت کس کا
چار سُو ملک میں تھا ہورہا شور و غوغا
بلکہ سچ ہے کہ وہ نمونہ قیامت کا تھا
کبھی آتا نہ کوئی دوست کسی دوست کے
کام
دل سے تھا محو ہوا مہر و محبت کا نام
سلطنت میں بھی تزلزل کے نمایاں تھے
نشاں
صاف ظاہر تھا کہ ہے چند دنوں کی مہماں
قاضی و مفتی بھی کھو بیٹھے تھے اپنا
ایماں
رحم و انصاف کے وہ نام سے بھی تھے انجاں
ایسے لوگوں سے تھا انصاف کا پانا معلوم
خیال انصاف کا تھا جن کے دلوں سے معدوم
افسرِ فوج لڑائی کے فنوں میں چوپٹ
منہ سے جو بات نکل جائے پھر اس پر تھی
ہٹ
رہتی آپس میں بھی ہر وقت تھی ان کی
کھٹ پٹ
تھے وہ بتلاتے ہر اک دوسرے کو ڈانٹ
ڈپٹ
پر کوئی موقع لڑائی کا جو آجاتا تھا
ہر کوئی صاف وہاں آنکھیں چرا جاتا
تھا
سلطنت کچھ تو انہی باتوں سے بے جان
ہوئی
کچھ لٹیروں نے غضب کردیا آفت ڈھائی
اک طرف مرہٹوں کی فوج ہے لڑنے کو کھڑی
دوسری جا پہ ہے سکھوں نے بھی شورش کر
دی
چاروں اطراف میں پھیلا تھا غرض اندھیرا
لشکرِ یاس نے ہر سمت سے تھا آگھیرا
لڑتے بھڑتے رہیں آپس میں امیر اور
وزیر
کیوں پسیں گھن کی طرح ساتھ غریب اور
فقیر
مدعا ان کا تولڑنے  سے ہے بس سرتاج و سریر
ہاتھ میں یاروں کے رہ جائے گی خالی
کفگیر
ان غریبوں کو امیروں نے ڈبویا افسوس
بات جو بِیت چکی اس پر کریں کیا افسوس
الغرض چین کلیجے کو نہ دل کو آرام
رات کا فکر لگا رہتا تھا سب کو سرِ
شام
صبح کو خوف کہ ہو آج کا کیسا انجام
رات دن کاٹتے اس طرح سے تھے وہ ناکام
دل سے انکے یہ نکلتی تھیں دعائیں دن
رات
یا الٰہی تیرے فضلوں کی ہو ہم پر برسات
ان پہ ڈالی گئی آخر کو تلطف کی نظر
مثل ِکافور اڑا دل سے جو تھا خوف و
خطر
یک قلم ملک سے موقوف ہوئے شورش و شر
نہ تو رہزن کا رہا کھٹکا نہ چوروں کا
ڈر
پھائے رکھے گئے واں مرہم ِکافوری کے
دیئے جاتے تھے جہاں زخم ِجگر کے چرکے
قومِ انگلش نے دیا آکے سہارا ہم کو
بحرِ افکار کے ہے پار اُتارا ہم کو
ورنہ صدموں نے تو تھا جان سے مارا ہم
کو
آگے مشکل تھا بہت کرنا گذارا ہم کو
ہند کی ڈوبی ہوئی کشتی ترائی اس نے
ملک کی بگڑی ہوئی بات بنائی اس نے
رحم وہ ہم پہ کئے جن کی نہیں کچھ گنتی
جن میں سے سب سے بڑی ہے مذہبی آزادی
ساتھ لائے یہ ہزاروں نئی ایجادیں بھی
جو نہ کانوں تھیں سنی اور نہ آنکھوں
دیکھی
عدل و انصاف میں وہ نام کیا ہے پیدا
آج ہر ملک میں جس کا کہ بجا ہے ڈنکا
شیر و بکری بھی ہیں اک گھاٹ پہ پانی
پیتے
نہیں ممکن کہ کوئی ترچھی نظر سے دیکھے
ایک ہی جا پہ ہیں سب رہتے برے اور بھلے
کیا مجال ان سے کسی کو بھی جو صدمہ
پہنچے
سب جو آپس میں ہیں یوں ہورہے ہیں شیر
و شکر
اس لیے ہے کہ نظر سب پہ ہے ان کی یکسر
ہند میں ریل انھوں نے ہی تو جاری کی
ہے
آمد و رفت میں جس سے بہت آسانی ہے
صیغۂ ڈاک کو انھوں نے ہی ترقی دی ہے
ملک میں چاروں طرف تار بھی پھیلائی
ہے
تاکہ انصاف کے پانے میں نہ ہو کچھ دقّت
منصفوں اور ججوں تک کی بھی کی ہے کثرت
علم کا نام و نشاں یاں سے مٹا جاتا
تھا
شوق پڑھنے کا دلوں میں سے اٹھا جاتا
تھا
کوئی عالِم کبھی اس ملک میں آجاتا
تھا
دیکھ کر اس کا یہ حال اشک بہا جاتا
تھا
یہ وہ بیمار تھا جس کو سبھی رو بیٹھے
تھے
ہاتھ سب اس کی شفا یابی سے دھو بیٹھے
تھے
پر وہ رب جس نے کہ سب کچھ ہی کیا ہے
پیدا
نہ تو ہے باپ کسی کا نہ کسی کا بیٹا
سارے گندوں سے ہے پاک اور ہے واحد یکتا
نہ وہ تھکتا ہے نہ سوتا ہے نہ کھاتا
پیتا
رحم کرتا ہے ہمیشہ ہی وہ ہم بندوں پر
کرسیٔ عدل پہ بیٹھے گا جو روزِ محشر
جو کہ قادر ہے جسے کچھ بھی نہیں ہے
پروا
ٹھیک کردے اسے دم میں کہ ہو جو کچھ
بگڑا
دیکھ کر اپنی یہ حالت جب اسے رحم آیا
دیکھو انگلینڈ سے اس قوم کو یاں لے
آیا
جس نے آتے ہی وہ نقشہ ہی بدل ڈالا
ہے
جس جگہ خار تھا اب واں پہ گلِ لالہ
ہے
سلسلے ہر جگہ تعلیم کے جاری ہیں کئے
شہروں اور گاؤں میں اسکول بکثرت کھولے
کالجوں کے بھی ہیں شہروں میں کھلے دروازے
ہر جگہ ہوتے ہیں اب علم و ہنر کے چرچے
کام وہ کرکے دکھایا کہ جو ناممکن تھا
آئے جب ہند میں وہ کیا ہی مبارک دن
تھا
قومِ انگلش! تیری ہر فرقے پہ ہے ایک
نظر
اس لیے تجھ پہ ہمیں ناز ہے سب سے بڑھ
کر
تھا مسیحا بھی تو پیدائش وقتِ قیصر
زندگی چھوٹے بڑے چین سے کرتے تھے بسر
اب مکرر جو ہے پھر وقتِ مسیحا آیا
قیصرِ روم کا کیوں ثانی نہ پیدا ہوتا
ابنِ مریمؑ سے ہے جس طرح یہ عالی رتبہ
قیصر ہند بھی ہے قیصر روما سے بڑا
مصطفیٰ کا یہ غلام اور وہ غلامِ موسیٰؑ
دیکھ لو کس کا ہے دونوں میں سے درجہ
بالا
قیصر روم کے محکوم تھے اک دو صوبے
تاجِ انگلشیہ پہ ممکن نہیں سورج ڈوبے
حق سے محمود بس اب اتنی دعا ہے میری
جس نے ہم کو کیا خوش، رکھے اسے وہ راضی
فتح و نصرت کی انہیں روز نئی پہنچے
خوشی
دور ہو دین میں ہے ان کی جو یہ گمراہی
دین اسلام بس اب ان کی سمجھ میں آجائے
بات یہ کچھ بھی نہیں رحم اگر وہ فرمائے
اخبار بدر 5 ۔14جون 1906ء

اپنا تبصرہ بھیجیں