22۔ کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں سکتا

کلام
محمود صفحہ42۔43

22۔ کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں
سکتا

کوئی گیسو مرے دل سے پریشاں ہو نہیں
سکتا
                          کوئی آئینہ مجھ سے بڑھ کر حیراں ہو نہیں سکتا    
کوئی یادِ خدا سے بڑھ کر مہماں ہو نہیں
سکتا
وہ ہو جس سے خانہ ِٔ دل میں وہ ویراں
ہو نہیں سکتا
الھٰی پھر سبب کیا ہے کہ درماں ہو نہیں
سکتا
ہمارا دردِ دل جب تجھ سے پنہاں ہو نہیں
سکتا
کوئی مجھ سا گنا ہوں پر پشیماں ہونہیں
سکتا
کوئی یوں غفلتوں پر اپنی گریاں ہو نہیں
سکتا
چھپا ہے ابر کے پیچھے نظر آتا نہیں
مجھ کو
میں اس کے چاند سے چہرہ پر قرباں ہو
نہیں سکتا
خداراخواب میں ہی آکے اپنی شکل دکھلا
دے
بس اب تو صبر مجھ سے اے مری جاں ہونہیں
سکتا
وہاں ہم جا نہیں سکتے یہاں وہ آ نہیں
سکتے
ہمارے درد کا کوئی بھی دَرماں ہو نہیں
سکتا
چھپیں وہ لاکھ پردوں میں ہم انکو دیکھ
لیتے ہیں
خیالِ روئے جاناں ہم سے پنہاں ہو نہیں
سکتا
زرِ خالص سے بڑھ کر صاف ہونا چاہیئے
دل کو
ذرا بھی کھوٹ ہو جس میں مسلماں ہو نہیں
سکتا
ہوا آخر نکل جاتی ہے آزارِ محبت کی
چھپاؤ لاکھ تم اس کو وہ پنہاں ہو نہیں
سکتا
نظر آتے تھے میرے حال پر وہ بھی پریشاں
سے
یہ میرا خواب تو خوابِ پریشاں ہو نہیں
سکتا
خدایا مدتیں گذریں تڑپتے تیری فرقت
میں
ترے ملنے کا کیا کوئی بھی ساماں ہونہیں
سکتا
بھلاؤں یاد سے کیونکر کلامِ پاک دلبر
ہے
جدا مجھ سے تو اک دم کو بھی قرآں ہونہیں
سکتا
مکانِ دل میں لا کر میں غمِ دلبر رکھوں
گا
مبارک اس سے بڑھ کر کوئی مہماں ہو نہیں
سکتا
وہ ہیں فردوس میں شاداں گرفتار بلا
ہوں میں
وہ غمگیں ہو نہیں سکتے میں خنداں ہونہیں
سکتا
معافی دے نہ جبتک وہ مرے سارے گناہوں
کی
جدا ہاتھوں سے میرے اس کا داماں ہو
نہیں سکتا
ہر اک دم اپنی قدرت کے انہیں جلوے دکھاتا
ہے
جو اس کے ہورہیں ہیں پھر ان سے پنہاں
ہونہیں سکتا
ہزاروں حسرتوں کا روز دل میں خون ہوتا
ہے
کبھی ویران یہ گنجِ شھیداں ہونہیں سکتا
مثالِ کوہ ِآتشبار کرتا ہوں فغاں ہر
دم
کسی کا مجھ سے بڑھ کے سینہ بریاں ہو
نہیں سکتا
ہوں اتنا منفعل اس سے کہ بولا تک نہیں
جاتا
میں اس سے مغفرت کا بھی تو خواہاں ہونہیں
سکتا
کِیا تھا پہلے دل کا خون اب جاں لے
کے چھوڑینگے
دیت کا بھی تو میں اس ڈر سے خواہاں
ہونہیں سکتا
اخبار بدر جلد 7۔ 22اکتوبر 1908ء

اپنا تبصرہ بھیجیں