
27۔ وہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو تو چھپا چھپا کر
کلام
محمود صفحہ50۔52
محمود صفحہ50۔52
27۔ وہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو
تو چھپا چھپا کر
وہ چہرہ ہر روز ہیں دکھاتے رقیب کو
تو چھپا چھپا کر
تو چھپا چھپا کر
وہ ہم ہی آفت زدہ ہیں جن سے چھپاتے
ہیں منہ دکھا دکھا کر
ہیں منہ دکھا دکھا کر
ہے مارا اک کو رلا رلا کر تو دوسرے
کو ہنسا ہنسا کر
کو ہنسا ہنسا کر
جگر کے ٹکڑے کئے ہیں کس نے یہ دل کی
حالت دُکھا دُکھا کر
حالت دُکھا دُکھا کر
اڑائیے گا نہ ہوش میرے غزالی آنکھی
دکھا دکھا کر
دکھا دکھا کر
چھری ہے چلتی دل و جگر پر نہ کیجئے
باتیں چبا چبا کر
باتیں چبا چبا کر
کوئی وہ دن تھا کہ پاس اپنے وہ تھے
بٹھاتے بلا بلا کر
بٹھاتے بلا بلا کر
نکالتے ہیں مگر وہاں سے دھتا مجھے اب
بتا بتا کر
بتا بتا کر
فراقِ جاناں نے دل کو دوزخ بنا دیا
ہے جلا جلا کر
ہے جلا جلا کر
یہ آگ بجھتی نہیں ہے مجھ سے میں تھک
گیا ہوں بجھا بجھا کر
گیا ہوں بجھا بجھا کر
جو ہے رقیبوں سے تم کو الفت تو دل میں
پوشیدہ رکھو اس کو
پوشیدہ رکھو اس کو
مجھے ہے دیوانہ کیوں بناتے بتا بتا
کر جتا جتا کر
کر جتا جتا کر
مجھے سمجھتے ہو کیا قلی تم کہ نت نئے
بوجھ لادتے ہو
بوجھ لادتے ہو
بس اب تو جانے دو تھک گیا ہوں غم و
مصیبت اٹھا اٹھا کر
مصیبت اٹھا اٹھا کر
پڑے بلا جس کے سر پہ آکر اسے وہی خوب
جانتا ہے
جانتا ہے
تماشہ کیا دیکھتے ہو صاحب ہمارے دل
کو دُکھا دُکھا کر
کو دُکھا دُکھا کر
کبھی جو تعریف کیجئے تو وہ کہتے ہیں
یوں بگڑ بگڑ کر
یوں بگڑ بگڑ کر
مزاج میرا بگاڑتے ہیں بنا بنا کر بنا
بنا کر
بنا کر
رہا الگ وہ ہمارا یوسف نہ اس کا دامن
بھی چھوسکے ہم
بھی چھوسکے ہم
یونہی عبث میں گنوائیں آنکھیں ہیں
اشک ِخونیں بہا بہا کر
اشک ِخونیں بہا بہا کر
جو کوئی ہے بن بلائے آیا تو اس کو
تم کیوں نکالتے ہو
تم کیوں نکالتے ہو
ہیں ایسے لاکھوں کہ بزم میں ہو انہیں
بٹھاتے بلا بلا کر
بٹھاتے بلا بلا کر
ہیں چاندنی راتیں لاکھوں گذریں کھلی
نہ دل کی کلی کبھی بھی
نہ دل کی کلی کبھی بھی
وہ عہد جو مجھ سے کرچکا ہے کبھی تو
اے بے وفا! وفا کر
اے بے وفا! وفا کر
جدائی ہم میں ہے کس نے ڈالی خضر تمہیں
اس کا کچھ پتہ ہے؟
اس کا کچھ پتہ ہے؟
وہ کون تھا جو کہ لے گیا دل ہے مجھ
سے آنکھیں ملا ملا کر
سے آنکھیں ملا ملا کر
فراقِ جاناں میں ساتھ چھوڑا ہر ایک
چھوٹے بڑے نے میرا
چھوٹے بڑے نے میرا
تھی دل پہ امید سو اسے بھی وہ لے گیا
ہے لُبھا لُبھا کر
ہے لُبھا لُبھا کر
ہزار کوشش کرے کوئی پروہ مجھ سے عہدہ
برآنہ ہوگا
برآنہ ہوگا
جسے ہو کچھ زعم آزمالے ہوں کہتا ڈنکا
بجا بجا کر
بجا بجا کر
یہ چھپ کے کیوں چٹکیاں ہے لیتا تجھے
بھلا کس کا ڈر پڑا ہے
بھلا کس کا ڈر پڑا ہے
جو شوق ہو دل کو چھیڑنے کا تو شوق سے
بَر مَلا مِلا کر
بَر مَلا مِلا کر
یہی ہے دن رات میری خواہش کہ کاش مل
جائے وہ پری رُو
جائے وہ پری رُو
مٹاؤں پھر بے قراریِٔ دل گلے سے اس
کو لگا لگا کر
کو لگا لگا کر
جو مارنا ہے تو تیر مژگاں سے چھید ڈالو
دل و جگر کو
دل و جگر کو
نہ مجھ کو تڑپاؤ اب زیادہ تم آئے دن
یوں ستا ستا کر
یوں ستا ستا کر
خدا پہ الزام بے وفائی یہ بات محمود
پھر نہ کہیؤ
پھر نہ کہیؤ
ہوا تجھے بندۂ خدا کیا ، خدا خدا کر،
خدا خدا کر
خدا خدا کر
جو کوچۂ عشق کی خبر ہو تو سب کریں
ایسی بے حیائی
ایسی بے حیائی
یہ اھلِ ظاہر جو مجھے سے کہتے ہیں کچھ
تو اے بے حیا! حیا کر
تو اے بے حیا! حیا کر
اخبار بدر جلد 8 ۔ 18 مارچ 1909ء