
35۔ دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب کیوں
کلام
محمود صفحہ62
محمود صفحہ62
35۔ دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب
کیوں
دل پھٹا جاتا ہے مثلِ ماہیٔ بے آب
کیوں
کیوں
ہورہا ہوں کس کے پیچھے اس قدر بیتاب
کیوں
کیوں
خالقِ اسباب ہی جب ہوں کسی پر خشمگیں
پھر بھلا اس آدمی کا ساتھ دیں اسباب
کیوں
کیوں
مجھ کو یہ سمجھیں کہ ہوں الفت میں مرفوع
القلم
القلم
میرے پیچھے پڑ رہے ہیں سب مرے احباب
کیوں
کیوں
جب کلیدِ معرفت ہاتھوں میں میرے آگئی
تیرے انعاموں کا مجھ پر بند ہے پھر
باب کیوں
باب کیوں
اس میں ہوتی ہے مجھے دیدِ رخ جاناں
نصیب
نصیب
میری بیداری سے بڑھ کر ہو نہ میرا خواب
کیوں
کیوں
امت احمدؐ نے چھوڑی ہے صراطِ مستقیم
کیوں نہ گھبراؤں نہ کھاؤں دل میں پیچ
و تاب کیوں
و تاب کیوں
جبکہ وہ یارِ یگانہ ہر گھڑی مجھ کو
بلائے
بلائے
پھر بتاؤ تو کہ آئے میرے دل کو تاب
کیوں
کیوں
جبکہ رونا ہے تو پھر دل کھول کر روئیں
گے ہم
گے ہم
نہر چل سکتی ہو تو بنوائیں ہم تالاب
کیوں
کیوں
چھوڑ دو جانے بھی دو سنتا ہوں یہ بھی
ہے علاج
ہے علاج
ڈالتے ہو میرے زخم دل پہ تم تیزاب کیوں
گفتگوئے عاشقاں سن سن کے آخر یہ کہا
بات تو چھوٹی سے تھی اتنا اِطناب کیوں
اخبار بدرجلد 8 ۔4نومبر 1909ء