42۔ اے چشمۂ علم و ھدیٰ، اے صاحب فہم و ذکا

کلام
محمود صفحہ80۔81

42۔ اے چشمۂ علم و ھدیٰ، اے صاحب فہم و
ذکا

اے چشمۂ علم و ھدیٰ ،اے صاحب فہم و
ذکا
اے نیک دل ،اے با صفا ،اے پاک طینت
،با حیا
اے مقتدا ،اے پیشوا ،اے میرزا ،اے راہنما
اے مجتبےٰ ،اے مصطفےٰ ،اے نائبِ رب
الوریٰ
کچھ یاد تو کیجے ذرا{  ہم سے
کوئی اقرار ہے
دیتے تھے تم جس کی خبر ،بندھتی تھی
جس سے یاں کمر
مٹ جائیگا سب شور و شر، موت آئیگی
شیطان پر
پاؤ گے تم فتح و ظفر، ہوں گے تمہارے
بحر و بر
آرام سے ہوگی بسر ،ہوگا خدا مدّ نظر
واں یہ تھے  وعدے خوب تر{ یاں حالتِ ادبار ہے
ہردل میں پُر ہے بغض و کیں، ہر نفس
شیطاں کار ہیں
جو ہو فدائے نور دیں، کوئی نہیں کوئی
نہیں
ہر ایک کے ہے سر میں کیں ،ہے کبر کا
دیو لعیں
اک دم کو یاد آتی نہیں، درگاہِ رب
العالمیں
بے چین ہے جانِ حزیں{  حالت
ہماری زار ہے
کہنے کو سب تیار ہیں، چالاک ہیں ہشیار
ہیں
منہ سے تو سو اقرار ہیں، پر کام سے
بیزار ہیں
ظاہر میں سب ابرار ہیں، باطن میں سب
اشرار ہیں
مصلح ہیں پر بدکار ہیں، ہیں ڈاکٹر پر
زار ہیں
حالات پر اسرار ہیں{ دل مسکن افکار ہے
چھینے گئے ہیں ملک سب، باقی ہیں اب
شام و عرب
پیچھے پڑا ہے ان کے اب ،دشمن لگائے
تا نقب
ہم ہورہے ہیں جاں بلب، بنتا نہیں کوئی
سبب
ہیں منتظر اس کے کہ کب، آئے ہمیں امدادِ
رب
پیالہ بھرا ہے لب بلب{ ٹھوکر ہی اک در کار ہے
کیا آپ پر الزام ہے، یہ خود ہمارا
کام ہے
غفلت کا یہ انجام ہے ،سستی کا یہ انعام
ہے
قسمت یونہی بدنام ہے، دل خود اسیرِ
دام ہے
اب کس جگہ اسلام ہے، باقی فقط اک نام
ہے
ملتی نہیں مے جام ہے{ بس اک یہی آزار ہے
رسالہ تشحیذالاذہان ماہ مارچ  1913ء

اپنا تبصرہ بھیجیں