47۔ آہ دنیا پہ کیا پڑی افتاد

کلام
محمود صفحہ87۔89

47۔ آہ دنیا پہ کیا پڑی افتاد

آہ دنیا پہ کیا پڑی افتاد
دین و ایمان ہوگئے برباد
مہر اسلام ہوگیا مخفی
سارے عالم پہ چھا گیا ہے سواد
آج مسلم ہیں رنج و غم سے چور
اور کافر ہیں خندہ زن دلشاد
روح اسلام ہوگئی محصور
کفر کا دیو ہوگیا آزاد
جو بھی ہے دشمنِ صداقت ہے
دین حق سے ہے اسکو بغض و عناد
جھوٹ نے خوب سر نکالا ہے
ہے صداقت کی ہل گئی بنیاد
دشمنانِ شریعتِ حقہ
چاہتے ہیں تغلّب و افساد
اس ارادے پہ گھر سے نکلے ہیں
دین اسلام کو کریں برباد
ہے ہمارے علاج کا دعویٰ
کہتے ہیں اپنے آپ کو فصّاد
مگر اس فصد کے بہانے سے
کر رہے ہیں وہ کارِ صد جلّاد
ستم و جَور بڑھ گیا حد سے
انتہا سےنکل گئی ہے داد
ہے غضب ہیں وہ شائق بیداد
پھر ستم یہ کہ ہیں ستم ایجاد
پھر یہ ہے قہر ظلم کرکے وہ
خود ہمیں سے ہیں ہوتے طالبِ داد
اے خدا اے شہِ مکین و مکاں
قادر و کارساز و ربّ عباد
دین احمد کا تو ہی ہے بانی
پس تجھی سے ہماری ہے فریاد
تیرا در چھوڑ کر کہاں جائیں
کس سے جاکر طلب کریں امداد
چاروں اطراف سے گھرے ہیں ہم
آگے پیچھے ہمارے ہیں حُسّاد
ہے اِدھر پا شکستگی کی قید
اور اُدھر سر پہ آگیا صیاد
زلزلوں سے ہماری ہستی کی
ہل گئی سر سے پا تلک بنیاد
کچھ تو فرمائیے کریں اب کیا
کچھ تو اب کیجئے ہمیں ارشاد
کب تلک بے گناہ رہیں گے ہم
تختۂ مشق ِ بازوئے جلّاد
کب طلسمِ فریب ٹوٹے گا
کب گرے گا وہ پنجۂ فولاد
ان دکھوں سے نجات پائیں گے کب
ہوں گے کب ان غموں سے ہم آزاد
کب رہا ہوگی قید سے فطرت
دور کب ہوگا دَورِ استبداد
شانِ اسلام ہوگی کب ظاہر
کب مسلماں ہوگے خرم و شاد
پوری ہوگی یہ آرزو کس وقت
کب بَر آئے گی یہ ہماری مراد
میں بھی کہتا ہوں آج تجھ سے وہی
جو ہیں پہلے سے کہہ گئے استاد
نام لیوا رہے گا تیرا کون
ہم اگر ہوگئے یونہی برباد
کون ہوگا فدا ترے رخ پر
کون کہلائے گا ترا فرہاد
کون رکھے گا پھر امانتِ عشق
کس کے دل میں رہے گی تیری یاد
احمدی اٹھ کہ وقت خدمت ہے
یاد کرتا ہے تجھ کو ربّ ِعباد
شکر کر شکر یاد کرتا ہے
گد گداتی تھی دل کو جس کی یاد
خدمتِ دیں ہوئی ہے تیرے سپرد
دور کرنا ہے تو نے شر و فساد
تجھ پہ ہے فرض نصرتِ اسلام
تجھ پہ واجب ہے دعوت و ارشاد
خدمتِ دیں کے واسطے ہوجا
ساری قیدوں کو توڑ کر آزاد
دشمن حق ہیں گو بہت لیکن
کام دے گی انہیں نہ کچھ تعداد
کفر و الحاد کے مٹانے کی
حق نے رکھی ہے تجھ میں استعداد
فتح تیرے لئے مقدر ہے
تیری تائید میں ہے ربّ عباد
قصر ِکفر و ضلالت و بدعت
تیرے ہاتھوں سے ہوگا اب برباد
ہاں تری رہ میں ایک دوزخ ہے
جس میں بھڑکی ہے نارِ بغض و عناد
انکے شعلوں کی زد میں جو آجائے
دیکھتے دیکھتے ہو جل کے رماد
پر نہ لا خوف دل میں تُو کوئی
کیونکہ ہے ساتھ تیرے رب عباد
بے دھڑک اور بے خطر اس میں
کودجا کہہ کے ہر چہ بادا باد
اخبار الفضل جلد 7 ۔5جنوری 1920ء

اپنا تبصرہ بھیجیں