78۔ تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہم سر ہی نہیں

کلام
محمود صفحہ129

78۔ تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہم سر
ہی نہیں

تُو وہ قادر ہے کہ تیرا کوئی ہم سر
ہی نہیں
میں وہ بے بس ہوں کہ بے در بھی ہوں
بے پر ہی نہیں
لذّتِ جہل سے محروم کیا علم نے آہ!
خواہش اُڑنے کی تو رکھتا ہوں مگر پر
ہی نہیں
گھونسلے چڑیوں کے ہیں ماندیں ہیں شیروں
کے لیے
پر مرے واسطے دنیا میں کوئی گھر ہی
نہیں
خوف اگر ہے تو یہ ہے تجھ کو نہ پاؤں
ناراض
جان جانے کا تو اے جانِ جہاں ڈر ہی
نہیں
عشق بھی کھیل ہے ان کا کہ جو دل رکھتے
ہیں
ہو جو سودا تو کہاں ہو کہ یہاں سر ہی
نہیں
آنکھیں پُر نم ہیں جگر ٹکڑے ہے سینہ  ہے چاک
یاد میں تیری تڑپتا دلِ مضطر ہی نہیں
ذرّہ  ذرّہ   مجھے
عالم کا یہ کہتا ہے کہ دیکھ
میں بھی ہوں آئنہ اس کا مہ و اختر ہی
نہیں
دل کے بہہ جانے کی نالے بھی خبر دیتے
ہیں
شاہد اس بات پہ نوکِ مژۂ تر ہی نہیں
خواہشِ وصل کروں بھی تو کروں کیونکر
میں
کیا کہوں ان سے کہ مجھ میں کوئی جوہر
ہی نہیں
دِل سے ہے وسعتِ ترحیبِ محبت مفقود
ساقی اِ ستادہ ہے مینا لیے ساغر ہی
نہیں
قربِ دلدار کی راہیں تو کھلی ہیں لیکن
کیا کروں میں جسے اسباب میسّر ہی نہیں
ہے غم نفس اِدھر فکر اُدھر عالَم کا
چین ممکن ہی نہیں ،امن مقدّر ہی نہیں
اخبار الفضل جلد 14 ۔ 31اگست 1926ء

اپنا تبصرہ بھیجیں