77۔ بخش دو رحم کروشکوے گلے جانے دو

کلام
محمود صفحہ128

77۔ بخش دو رحم کروشکوے گلے جانے دو

بخش دو رحم کروشکوے گلے جانے دو
مر گیا ہجر میں مَیں پاس مجھے جانے
دو
دوستو! کچھ نہ کہو مجھ سے مجھے جانے
دو
خنجرِ ناز سے تم سر مجھے کٹوانے دو
پڑ گئی جس پہ نظر ہو گیا مدہوش
میرے دلدار کی آنکھیں ہیں کہ خمخانے
دو
دوستو رحم کرو کھول دو زنجیروں کو
جا کے جنگل میں مجھے دل ذرا بہلانے
دو
سر ہے پر فکر نہیں ،دل ہے پر امید نہیں
اب ہیں بس شہر کے باقی یہی ویرانےدو
تمھیں تریاق مبارک ہو مجھے زہر کے گھونٹ
غم ہی اچھاہے مجھے تم مجھے غم کھانے
دو
دوستو! سمجھو تو زندگی ہے اس موت کانام
یار کی راہ میں اب تم مجھے مر جانے
دو
دل کی دل جانے مجھے کام نہیں کچھ اس
سے
اپنی ڈالی ہوئی گتھی اسے سُلجھانے دو
نفس پر بوجھ ہی ڈالو گے تو ہو گی اصلاح
اونٹ لدتے ہیں یونہی چیخنے چلانے دو
فکر پر فکر تو غم پر ہے غموں کی بوچھاڑ
سانس تو لینے دو تھوڑا سا تو سستانے
دو
اک طرف عقل کے شیطان ہے تو اک جانب
نفس
ایک دانا کو ہیں گھیرے ہوئے دیوانے
دو
کبھی غیرت کے بھی دکھلانے کا موقع ہو
گا
یا یونہی کہتے چلے جاؤ گے تم جانے
دو
کٹ گئی عمر رگڑتے ہوئے ماتھا در پر
کاش تُم کہتے کبھی تو کہ اسے جانے دو
مجھ سے ہے اور تو غیروں سے ہے کچھ اور
سلوک
دلبرا آپ بھی کیا رکھتے ہیں پیمانے
دو
تن سے کیا جان جُدا رہتی ہے یا جان
سے تن
راستہ چھوڑ دودَربانو مجھےجانے دو
اخبار الفضل جلد 14 ۔ 24اگست 1927ء

اپنا تبصرہ بھیجیں