90۔ چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ

کلام
محمود صفحہ148

90۔ چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ

چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ
کسی کی یاد میں مَیں ہو رہا ہوں دیوانہ
زمانہ گذرا کہ دیکھیں نہیں وہ مست آنکھیں
کہ جن کو دیکھ کے میں ہو گیا تھا مستانہ
وہ شمع رو کہ جسے دیکھ کر ہزاروں شمع
بھڑک اٹھی تھیں بسوزِ ہزار پروانہ
وہ جس کے چہرہ سے ظاہر تھا نورِربانی
مَلک کو بھی جو بناتا تھا اپنا دیوانہ
کہاں ہے وہ کہ ملوں آنکھیں اسکے تلووں
سے
کہاں ہے وہ کہ گروں اس پہ مثلِ پروانہ
وہ صحبتیں کہ نئی زندگی دلاتی تھیں
وہ آج میرے لئے کیوں بنی ہیں افسانہ
وہ یار جس کی محبت پہ ناز تھا مجھ کو
کوئی بتاؤ کہ کیوں ہو رہا ہے بیگانہ
جو کوئی روک تھی اس کو یہاں پہ آنے
کی
بلا لیا نہ وہیں کیوں نہ اپنا دیوانہ
نہ چھیڑ دشمنِ ناداں نہ چھیڑ کہتا ہوں
چھلک رہا ہے مرے غم کا آج پیمانہ
تری نصیحتیں بے کار تیرے مکر فضول
یہ چھیڑ جا کے کسی اور جا پہ افسانہ
چھڑائے گا بھلا کیا دل سے میرے یاد
اُس کی
تُو اور مجھ کو بناتا ہے اُس کا دیوانہ
نہ تیرے ظلم سے ٹوٹے گا رشتہ الفت
نہ حرص مجھ کو بنائے گی اس سے بیگانہ
ہے تیری سعی دلیلِ حماقتِ مطلق
ہے تیری جدوجہد ایک فعلِ طفلانہ
ترا خیال کدھر ہے یہ سوچ اے ناداں
رہا ہےدور کبھی شمع سے بھی پروانہ
حدیثِ مدرسہ و خانقاہ مگو بخدا
فتاد برسرِ حافظ ہوائے میخانہ
اخبار الفضل جلد 20 ۔ یکم جنوری 1933ء

اپنا تبصرہ بھیجیں