121۔ معصیت و گناہ سے دل مرا داغ دار تھا

کلام
محمود صفحہ182

121۔ معصیت و گناہ سے دل مرا داغ دار تھا

معصیت و گناہ سے دل مرا داغدار تھا
 پھر بھی کسی
کے وصل کے شوق میں بیقرار تھا
بے عمل وبے خطا شعار، بیکس و بےوقار
تھا
پر میری جان یہ تو سوچ کن میں مرا شمار
تھا
ہجر میں وصل کا مزا پالیا میں نے ہمنشیں
لب پہ تو تھا نہیں ،مگر آنکھ میں اُن
کی پیار تھا
سوؤں تو تجھ کو دیکھ کر جاگوں تو تجھ
پہ ہو نظر
موت سے تھا کسےدریغ اس کا ہی انتظار
تھا
آہِ غریب کم نہیں غیظِ شہ جہاں سےکچھ
جس سے ہوا جہاں تباہ دل کا مرے غبار
تھا
شکوہ کا کیا سوال ہےان کاعتاب بھی ہے
بے مہر
منہ سے میں دادخواہ تھادل میں مَیں
شرمسار تھا
دیر کے بعد وہ ملےاٹھ کے ملے کسے سکت
دل میں خوشی کی لہر تھی آنکھ سے اشکبار
تھا
شکرِخد اگزر گئی نازونیاز میں ہی عمر
مجھ کو بھی ان سے عشق تھا ان کو بھی
مجھ سے پیار تھا
اخبار الفضل جلد 34۔3جنوری1946ء

اپنا تبصرہ بھیجیں