124۔ دردِ نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا

کلام
محمود صفحہ185

124۔ دردِ نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا

دردِ نہاں کا حال کسی کو سنائیں کیا
طوفان اٹھ رہا ہے جو دل میں بتائیں
کیا
کچھ لوگ کھا رہے ہیں غمِ قوم صبح وشام
کچھ صبح و شام سوچتے رہتے ہیں کھائیں
کیا
جس پیار کی نگہ سے ہمیں دیکھتا ہے وہ
اس پیار کی نگاہ سے دیکھیں گی مائیں
کیا
جام ِشراب و سازِ طرب رقصِ پُرخروش
دنیا میں دیکھتا ہوں میں یہ دائیں بائیں
کیا
دنیا ہے ایک زالِ عمرخوردہ و ضعیف
اس زال زِشت رو سے بھلا دل لگائیں کیا
دامن تہی ہے،فکر مشوش ،نگہ غلط
آئیں توتیرے در پہ مگرساتھ لائیں کیا
حرص وہواوکبروتغلب کی خواہشات
چمٹی ہوئی ہیں دامنِ دل سے بلائیں کیا
اپنا ہی سب قصور ہے اپنی ہی سب خطا
الزام اُن پہ ظلم و جفا کا لگائیں کیا
اخبار الفضل جلد 1۔28دسمبر1947ء

اپنا تبصرہ بھیجیں