131۔ مردوں کی طرح باہر نکلو اور نازوادا کو جانےدو

کلام
محمود صفحہ195

131۔ مردوں کی طرح باہر نکلو اور نازوادا
کو جانےدو

اترسوں خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص ہے اور وہ میری ایک نظم خوش الحانی سے بلند
آواز میں پڑھ رہا ہے۔آنکھ کھلی تو شعر تو کوئی یاد نہ رہا مگر وزن اورقافیہ ردیف
خوب اچھی طرح یادرہے۔اسی وقت ایک مصرع بنایا کہ وزن ردیف یاد رہ جائیں۔صبح اس پر
غزل کہی جو چھپنے کے لیےارسال ہے۔  (مرزا
محمود احمد)
مردوں کی طرح باہر نکلو اور
نازوادا کو جانےدو
سل رکھ لو اپنے سینوں پر اور آہ
وبکا کو رہنے دو
اب تیر نظر کو پھینک کے تم اک خنجر
ِ آہن ہاتھ میں لو
یہ فولادی پنجوں کے ہیں دن اب دستِ
حنا کو رہنے دو
کیا جنگوں سے مومن کو ہےڈروہ موت سے
کھیلا کرتا ہے
تم اس کے سر کرنے کے لیے میدانِ
وغا کو رہنے دو
ایام ِطرب میں ساتھ رہےجب غم آیا
تو بھاگ اٹھے
ہے دیکھی ہوئی اپنی یہ وفا تم اپنی
وفا کو رہنے دو
مسلم جو خدا کا بندہ تھا افسوس کہ
اب یوں کہتا ہے
اسباب کرو کوئی پیدا جبریل وخدا کو
رہنے دو
خود کام کو چوپٹ کرکے تم اللہ کے
سر منڈھ دیتے ہو
تم اپنے کاموں کو دیکھو اور اس کی
قضاء کو رہنے دو
جو اس کے پیچھے چلتے ہیں ہرقسم کی
عزت پاتے ہیں
لگ جاؤ اسی کی طاعت میں چون وچراکو
رہنے دو
وہ اس کی تیکھی چَتون میں جنت کا
نظارہ دیکھتا ہے
اس جوروجفا کے واسطے تم پابندِوفا
کو رہنے دو
اخبار الفضل جلد 2 ۔ 3جون 1948ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں