132۔ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے

کلام
محمود صفحہ196

132۔ ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے

ہوا زمانہ کی جب بھی کبھی بگڑتی ہے
مری نگاہ تو بس جا کے تجھ پہ پڑتی
ہے
بدل کے بھیس معالج کا خودوہ آتے
ہیں
زمانہ کی جو طبیعت کبھی بگڑتی ہے
زبان میری تو رہتی ہے ان کے آگے
گنگ
نگاہ میری نگاہوں سے ان کی لڑتی ہے
الجھ الجھ کے میں گرتا ہوں دامن تر
سے
مری امیدوں کی بستی یونہی اجڑتی ہے
منٹ منٹ پہ مرا امتحان لیتے ہیں
قدم قدم پہ مصیبت یہ آن پڑتی ہے
اخبار الفضل جلد 2 ۔ 6جولائی 1948ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں