140۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا

کلام
محمود صفحہ204

140۔ وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ تھا

وہ آئے سامنے منہ پر کوئی نقاب نہ
تھا
یہ انقلاب کوئی کم تو انقلاب نہ
تھا
مرے ہی پاؤں اٹھائے نہ اٹھ سکے
افسوس
انھیں تو سامنے آنے میں کچھ حجاب
نہ تھا
تھا یادگار تری کیوں ہٹا دی ا س نے
مرا یہ دردِمحبت کوئی عذاب نہ تھا
جو دل پہ ہجر میں گذری بتاؤں کیا
پیارے
عذاب تھا وہ مرے دل کاضطراب نہ تھا
ہوئے نہ انجمن آرا ء اگر تو کیا
کرتے
کہ ان کے حسن کا کوئی بھی تو جواب
نہ تھا
بلا رہے تھے اشاروں سے باربارمجھے
مراد میں ہی تھا مجھ سے مگر خطاب
نہ تھا
وفورِحسن سے آنکھیں جہاں کی خیرہ
تھیں
نظر نہ آتے تھے منہ پر کوئی نقاب
نہ تھا
عطائیں ان کی بھی بے انتہا تھیں
مجھ پہ مگر
مطالبوں کا مرے بھی کوئی حساب نہ
تھا
جھڑک دیا جو فضاؤں پہ عفو کا پانی
وہ کونسا تھا بدن جو کہ آب آب نہ
تھا
بس ایک ٹھیس سے ہی پھٹ کے رہ گیا
اے شیخ
یہ کیا ہوا ترادل تھا کوئی حباب نہ
تھا
ضیاء ِمہر ہے ادنیٰ سی اک جھلک اس
کی
نہ جس کو میں دیکھ سکا میں وہ
آفتاب نہ تھا
جو پورا کرتے اسے آپ کیا خرابی تھی
مرا خیال کوئی بوالہوس کا خواب نہ
تھا
اخبار الفضل جلد 2 ۔ 13نومبر 1948ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں