158۔ آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بے تاب ہے

کلام
محمود صفحہ223

158۔ آنکھ
گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بے تاب ہے

آنکھ گر مشتاق ہے جلوہ بھی تو بے تاب
ہے
دل دھڑکتا ہے مرا آنکھ اُن کی بھی پُرآب
ہے
سر میں ہیں افکار یا اک بادلوں کا ہے
ہجوم
دل مرا سینہ میں ہے یا قطرۂ سیماب ہے
ظلمتوں نے گھیر رکھا ہے مجھے پَر غم
نہیں
دُور اُفق میں جگمگاتا چہرۂ مہتاب ہے
حق کی جانب سے ملا ہو جس کو تقوٰی کا
لباس
جسم پر اس کے اگر گاڑھا بھی ہو کمخواب
ہے
جسمِ ایماں سعی و کوشش سے ہی پاتا ہے
نمو
آرزوئے بے عمل کچھ بھی نہیں اک خواب
ہے
عشقِ صادق میں ترا رونا ہے اک آب حیات
بے غرض رونا ترا اک بے پَنَہ سیلاب
ہے
اخبار الفضل جلد5۔ 4 اگست 1951ء۔لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں