195۔ دل دے کے مشت خاک کودلدار ہوگئے

کلام
محمود صفحہ270

195۔ دل دے کے مشت خاک کودلدار ہوگئے

دل
دے کے مشت خاک کودلدار ہوگئے
اپنی
عطاء کے آپ خریدار ہوگئے
پہلے
تو ساحروں کے عصا نارہوگئے
لیکن
عصاسئے موسیٰ سے بیکار ہوگئے
اس
عشق میں گلاب بھی اب خار ہوگئے
دل
کے پھپھولے جل اٹھے انگار ہوگئے
تیری
عنایتوں نے دکھایا ہے یہ کمال
اعداء
ِسخت آج نگوں سار ہوگئے
میرے
مسیح!تیرا تقدس کما ل ہے
بے
دین تھے جو آج وہ دیندار ہوگئے
کیوں
کانپتا ہے دشمن جاں تیرے پیار سے
جو
دوست تھے وہ طالب آزار ہوگئے
ان
کو سزا بھی دی تو بڑائی ہےاس میں کیا
جوخودہی
اپنے نفس سے بیزار ہوگئے
اللہ
کے فرشتوں کی طاقت تو دیکھ تو
جوہم
کو مارتے تھے گرفتار ہوگئے
جھوٹوں
کو حق نے کر دکھایا ہے سربلند
جوتھے
ذلیل قوم کے سردار ہوگئے
بھائی!زمانہ
کا یہ تغیرتود یکھنا
جو
صاحب جلال تھے بے کار ہوگئے
مولا
کی مہربانی تو دیکھو کے کس طرح
جو
تابع فرنگ تھے سرکار ہوگئے
سستی
نے خون قوم کا چوسا ہے اس طرح
جو
سربراہ کارتھے بے کار ہوگئے
عشق
خدا نے خول چڑھایا تھا اس کے گرد
انگار
بھی خلیلؑ پہ گلزار ہوگئے
از رسالہ الفضل جلد24۔26دسمبر 1970ء

اپنا تبصرہ بھیجیں