
29۔شان اسلام
شان اسلام
اسلام سے نہ بھاگو راہِ ہدیٰ
یہی ہے
یہی ہے
اے سونے والو جاگو! شمس الضحٰی
یہی ہے
یہی ہے
مجھ کو قسم خدا کی جس نے ہمیں
بنایا
بنایا
اَب آسماں کے نیچے دینِ خدا
یہی ہے
یہی ہے
وہ دِلستاں نہاں ہے کِس راہ
سے اُس کو دیکھیں
سے اُس کو دیکھیں
اِن مشکلوں کا یارو مشکل کُشا
یہی ہے
یہی ہے
باطن سِیہ ہیں جن کے اِس دیں سے ہیں وہ منکر
پر اَے اندھیرے والو! دِل کا
دِیا یہی ہے
دِیا یہی ہے
دنیا کی سب دُکانیں ہیں ہم
نے دیکھی بھالیں
نے دیکھی بھالیں
آخر ہوا یہ ثابت دَارُ الشفاء
یہی ہے
یہی ہے
سب خشک ہوگئے ہیں جتنے تھے
باغ پہلے
باغ پہلے
ہر طرف مَیں نے دیکھا بُستاں
ہرا یہی ہے
ہرا یہی ہے
دنیا میں اِس کا ثانی کوئی
نہیں ہے شربت
نہیں ہے شربت
پی لو تم اِس کو یارو! آبِ
بقا یہی ہے
بقا یہی ہے
اِسلام کی سچائی ثابت ہے جیسے
سورج
سورج
پر دیکھتے نہیں ہیں دشمن۔ بَلا یہی ہے
جب کُھل گئی سچائی پھر اُس
کو مان لینا
کو مان لینا
نیکوں کی ہے یہ خصلت راہِ حیا
یہی ہے
یہی ہے
جو ہو مفید لینا جو بد ہو اس
سے بچنا
سے بچنا
عقل و خرد یہی ہے فہم و ذکا
یہی ہے
یہی ہے
ملتی ہے بادشاہی اِس دیں سے
آسمانی
آسمانی
اے طالبانِ دولت ظلِّ ہُما
یہی ہے
یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما
یہی ہے
یہی ہے
سب دیں ہیں اِک فسانہ شِرکوں
کا آشیانہ
کا آشیانہ
اُس کا جو ہے یگانہ چہرہ نما
یہی ہے
یہی ہے
سَو سَو نشاں دکھا کر لاتا
ہے وہ بُلا کر
ہے وہ بُلا کر
مجھ کو جو اُس نے بھیجا بس
مدّعا یہی ہے
مدّعا یہی ہے
کرتا ہے معجزوں سے وہ یار دیں
کو تازہ
کو تازہ
اسلام کے چمن کی بادِ صبا یہی
ہے
ہے
یہ سب نشاں ہیں جن سے دیں اب
تلک ہے تازہ
تلک ہے تازہ
اے گِرنے والو دوڑو دیں کا
عصا یہی ہے
عصا یہی ہے
کِس کام کا وہ دیں ہے جس میں
نشاں نہیں ہے
نشاں نہیں ہے
دیں کی میرے پیارو زرّیں قبا
یہی ہے
یہی ہے
افسوس آریوں پر جو ہوگئے ہیں
شپّر
شپّر
وہ دیکھ کر ہیں مُنکر ظلم و
حِفا یہی ہے
حِفا یہی ہے
معلوم کر کے سب کچھ محروم ہوگئے
ہیں
ہیں
کیا اِن نیوگیوں کا ذہنِ رسا
یہی ہے
یہی ہے
اِک ہیں جو پاک بندے اِک ہیں
دلوں کے گندے
دلوں کے گندے
جیتیں گے صادق آخر حق کا مزا
یہی ہے
یہی ہے
اِن آریوں کا پیشہ ہر دم ہے
بدزبانی
بدزبانی
ویدوں میں آریوں نے شاید پڑھا
یہی ہے
یہی ہے
پاکوں کو پاک فطرت دیتے نہیں
ہیں گالی
ہیں گالی
پر اِن سِیہ دِلوں کا شیوہ
سدا یہی ہے
سدا یہی ہے
افسوس سبّ و توہیں سب کا ہوا
ہے پیشہ
ہے پیشہ
کس کو کہوں کہ اُن میں ہرزہ
درا یہی ہے
درا یہی ہے
آخر یہ آدمی تھے پھر کیوں ہوئے
درندے
درندے
کیا جون اِن کی بگڑی یا خود
قضا یہی ہے
قضا یہی ہے
جس آریہ کو دیکھیں تہذیب سے
ہے عاری
ہے عاری
کِس کِس کا نام لیویں ہر سُو
وَبا یہی ہے
وَبا یہی ہے
لیکھو کی بدزبانی کا رد ہوئی
تھی اُس پر
تھی اُس پر
پھر بھی نہیں سمجھتے حمق و
خطا یہی ہے
خطا یہی ہے
اپنے کئے کا ثمرہ لیکھو نے
کیسا پایا
کیسا پایا
آخر خدا کے گھر میں بَد کی
سزا یہی ہے
سزا یہی ہے
نبیوں کی ہتک کرنا اور گالیاں
بھی دینا
بھی دینا
کُتّوں سا کھولنا مُنہ تخمِ
فنا یہی ہے
فنا یہی ہے
میٹھے بھی ہو کے آخر نشتر ہی
ہیں چلاتے
ہیں چلاتے
اِن تیرہ باطنوں کے دِل میں
دغا یہی ہے
دغا یہی ہے
جاں بھی اگرچہ دیویں ان کو
بطور احساں
بطور احساں
عادت ہے اِن کی کفراں رنج و
عنا یہی ہے
عنا یہی ہے
ہندو کچھ ایسے بگڑے دِل پُر
ہیں بغض و کیں سے
ہیں بغض و کیں سے
ہر بات میں ہے تو ہیں طرزِ
ادا یہی ہے
ادا یہی ہے
جاں بھی ہے اِن پہ قرباں گر
دِل سے ہوویں صافی
دِل سے ہوویں صافی
پس ایسے بدکنوں کا مجھ کو گِلا
یہی ہے
یہی ہے
احوال کیا کہوں میں اس غم
سے اپنے دل کا
سے اپنے دل کا
گویا کہ ان غموں کا مہماں
سرا یہی ہے
سرا یہی ہے
لیتے ہی جنم اپنا دشمن ہوا
یہ فرقہ
یہ فرقہ
آخر کی کیا اُمیدیں جب ابتدا
یہی ہے
یہی ہے
دل پھٹ گیا ہمارا تحقیر سُنتے
سُنتے
سُنتے
غم تو بہت ہیں دِل میں پر جاں
گزا یہی ہے
گزا یہی ہے
دنیا میں گرچہ ہوگی سَو قسم
کی بُرائی
کی بُرائی
پاکوں کی ہتک کرنا سب سے بُرا
یہی ہے
یہی ہے
غفلت پہ غافلوں کی روتے رہے
ہیں مُرسل
ہیں مُرسل
پر اِس زماں میں لوگو !نوحہ
نیا یہی ہے
نیا یہی ہے
ہم بد نہیں ہیں کہتے اُن کے
مقدسوں کو
مقدسوں کو
تعلیم میں ہماری حکمِ خدا یہی
ہے
ہے
ہم کو نہیں سکھاتا وہ پاک بدزبانی
تقویٰ کی جڑ یہی ہے صدق و صفا
یہی ہے
یہی ہے
پر آریوں1 کے دیں
میں گالی بھی ہے عبادت
میں گالی بھی ہے عبادت
کہتے ہیں سب کو جھوٹے کیا اتّقا
یہی ہے
یہی ہے
"جتنے نبی تھے آئے موسیٰ
ہو یا کہ عیسیٰ
ہو یا کہ عیسیٰ
مکّار ہیں وہ سارے "اِن
کی نِدا یہی ہے
کی نِدا یہی ہے
"اِک وید ہے جو سچّا باقی
کتابیں ساری
کتابیں ساری
جھوٹی ہیں اور جعلی اِک رہ
نما یہی ہے”
نما یہی ہے”
یہ ہے خیال اِن کا پَربَتْ
بنایا تنکا
بنایا تنکا
پر کیا کہیں جب ان کا فہم و
ذکا یہی ہے
ذکا یہی ہے
کیڑا جو دَب رہا ہے گوبر کی
تہ کے نیچے
تہ کے نیچے
اُس کے گماں میں اُس کا ارض
و سما یہی ہے
و سما یہی ہے
ویدوں2 کا سب خلاصہ
ہم نے نیوگ پایا
ہم نے نیوگ پایا
اِن پُستکوں کی رُو سے کارج
بَھلا یہی ہے
بَھلا یہی ہے
جس اِستری کو لڑکا پیدا نہ
ہو پِیا سے
ہو پِیا سے
ویدوں کی رُو سے اُس پر واجب
ہوا یہی ہے
ہوا یہی ہے
جب ہے یہی اشارہ پھر اُس سے
کیا ہے چارہ
کیا ہے چارہ
جب تک نہ ہوویں گیارہ لڑکے
رَوا یہی ہے
رَوا یہی ہے
ایشر کے گُن عجب ہیں ویدوں
میں اے عزیزو!
میں اے عزیزو!
اُس میں نہیں مروّت ہم نے سُنا
یہی ہے
یہی ہے
دے کر نجات و مکتی پھر چھینتا
ہے سب سے
ہے سب سے
کیسا ہے وہ دیالو جس کی عطا
یہی ہے
یہی ہے
ایشر بنا ہے مُنہ سے خالق نہیں
کِسی کا
کِسی کا
رُوحیں ہیں سب انادی پھر کیوں خدا یہی ہے
رُوحیں اگر نہ ہوتیں ایشر سے
کچھ نہ بنتا
کچھ نہ بنتا
اُس کی حکومتوں کی ساری بِنا
یہی ہے
یہی ہے
اُن کا ہی مُنہ ہے تکتا ہر
کام میں جو چاہے
کام میں جو چاہے
گویا وہ بادشاہ ہیں اُن کا
گدا یہی ہے
گدا یہی ہے
القصّہ آریوں کے ویدوں کا یہ
خدا ہے
خدا ہے
اُن کا ہے جس پہ تکیہ وہ بے
نوا یہی ہے
نوا یہی ہے
اے آریو کہو اب ایشر کے ہیں
یہی گُن
یہی گُن
جس پر ہو ناز کرتے بولو وہ
کیا یہی ہے؟
کیا یہی ہے؟
ویدوں کو شرم کر کے تم نے بہت
چھپایا
چھپایا
آخر کو راز بستہ اس کا کُھلا
یہی ہے
یہی ہے
قدرت نہیں ہے جس میں وہ خاک
ہے ایشر
ہے ایشر
کیا دینِ حق کے آگے زور آزما
یہی ہے
یہی ہے
کچھ کم نہیں بتوں سے یہ ہندوؤں
کا ایشر
کا ایشر
سچ پوچھئے تو واللہ بُت دوسرا
یہی ہے
یہی ہے
ہم نے نہیں بنائیں یہ اپنے
دل سے باتیں
دل سے باتیں
ویدوں سے اے عزیزو ہم کو مِلا
یہی ہے
یہی ہے
فطرت ہر اِک بشر کی کرتی ہے
اِس سے نفرت
اِس سے نفرت
پھر آریوں کے دِل میں کیونکر
بسا یہی ہے
بسا یہی ہے
یہ حکم وید کے ہیں جن کا ہے
یہ نمونہ
یہ نمونہ
ویدوں سے آریوں کو حاصل ہوا
یہی ہے
یہی ہے
خوش خوش عمل ہیں کرتے اوباش
سارے اِس پر
سارے اِس پر
سارے نیوگیوں کا اِک آسرا یہی3
ہے
ہے
پھر کس طرح وہ مانیں تعلیم
پاک فرقاں
پاک فرقاں
اُن کے تو دل کا رہبرا اور
مقتدا یہی ہے
مقتدا یہی ہے
جب ہوگئے ہیں ملزم اُترے ہیں
گالیوں پر
گالیوں پر
ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ
جفا یہی ہے
جفا یہی ہے
رُکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے
ایک دم بھی
ایک دم بھی
اِن کا تو شغل و پیشہ صبہ و
مسا یہی ہے
مسا یہی ہے
کہنے کو وید والے پر دل ہیں
سب کے کالے
سب کے کالے
پر وہ اُٹھا کے دیکھو اُن میں
بھرا 4یہی ہے
بھرا 4یہی ہے
فطرت کے ہیں درندے مُردار ہیں
نہ زندے
نہ زندے
ہر دم زباں کے گندے قہرِ خدا
یہی5 ہے
یہی5 ہے
دینِ خدا کے آگے کچھ بَن نہ
آئی آخر
آئی آخر
سب گالیوں پہ اُترے دل میں
اُٹھا یہی ہے
اُٹھا یہی ہے
شرم و حیا نہیں ہے آنکھوں میں
اُن کی ہرگز
اُن کی ہرگز
وہ بڑھ چکے ہیں حد سے اب انتہا
یہی ہے
یہی ہے
ہم نے ہے جس کومانا قادر ہے وہ توانا
اُس نے ہے کچھ دکھانا اُس سے
رجا یہی ہے
رجا یہی ہے
اُن سے دو چار ہونا عزّت ہے
اپنی کھونا
اپنی کھونا
اُن سے ملاپ کرنا راہِ ریا
یہی ہے
یہی ہے
بس اے مرے پیارو! عقبٰی کو
مت بسارو
مت بسارو
اِس دیں کو پاؤ یارو بدر الدّجٰی
یہی ہے
یہی ہے
مَیں ہوں ستم رسیدہ اُن سے
جو ہیں رمیدہ
جو ہیں رمیدہ
شاید ہے آبِ دیدہ واقفِ بڑا
یہی ہے
یہی ہے
مَیں دِل کی کیا سُناؤں کس
کو یہ غم بتاؤں
کو یہ غم بتاؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے مجھ
پر بلا یہی ہے
پر بلا یہی ہے
دیں کے غموں نے مارا اَب دل
ہے پارہ پارہ
ہے پارہ پارہ
دلبر کا ہے سہارا ورنہ فنا
یہی ہے
یہی ہے
ہم مر چکے ہیں غم سے کیا پوچھتے
ہو ہم سے
ہو ہم سے
اُس یار کی نظر میں شرطِ وفا
یہی ہے
یہی ہے
برباد جائیں گے ہم گروہ نہ
پائیں گے ہم
پائیں گے ہم
رونے سے لائیں گے ہم دل میں
رجا یہی ہے
رجا یہی ہے
وہ دن گئے کہ راتیں کٹتی تھیں
کر کے باتیں
کر کے باتیں
اَب موت کی ہیں گھاتیں غم کی
کتھا یہی ہے
کتھا یہی ہے
جلد آپیارے ساقی اب کچھ نہیں
ہے باقی
ہے باقی
دے شربت تلاقی حرص و ہوا یہی
ہے
ہے
شکرِ خدائے رحماں جس نے دیا
ہے قرآں
ہے قرآں
غنچے تھے سارے پہلے اب گُل
کھلا یہی ہے
کھلا یہی ہے
کیا وصف اُس کے کہنا ہر حرف
اُس کا گہنا
اُس کا گہنا
دلبر بہت ہیں دیکھے دل لے گیا
یہی ہے
یہی ہے
دیکھی ہیں سب کتابیں مجمل ہیں
جیسی خوابیں
جیسی خوابیں
خالی ہیں اُن کی قابیں خوانِ
ہدیٰ یہی ہے
ہدیٰ یہی ہے
اُس نے خدا ملایا وہ یار اُس
سے پایا
سے پایا
راتیں تھیں جتنی گزریں اَب
دن چڑھا یہی ہے
دن چڑھا یہی ہے
اُس نے نشاں دکھائے طالب سبھی
بُلائے
بُلائے
سوتے ہوئے جگائے بس حق نما
یہی ہے
یہی ہے
پہلے صحیفے سارے لوگوں نے جب
بگاڑے
بگاڑے
دنیا سے وہ سدھارے نوشہ نیا
یہی ہے
یہی ہے
کہتے ہیں حسنِ یوسف دلکش بہت
تھا لیکن
تھا لیکن
خوبی و دِلبری میں سب سے سوا
یہی ہے
یہی ہے
یوسف تو سُن چکے ہو اِک چاہ
میں گرا تھا
میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا
یہی ہے
یہی ہے
اِسلام کے محاسن کےونکر بیاں
کروں میں
کروں میں
سب خشک باغ دیکھے پھولا پھلا
یہی ہے
یہی ہے
ہر جاز میں کے کیڑے دیں کے
ہوئے ہیں دشمن
ہوئے ہیں دشمن
اسلام پر خدا سے آج ابتلا یہی
ہے
ہے
تھم جاتے ہیں کچھ آنسو یہ دیکھ
کر کہ ہر سو
کر کہ ہر سو
اِس غم سے صادقوں کا آہ وبکا
یہی ہے
یہی ہے
سب مشرکوں کے سر پر یہ دیں
ہے ایک خنجر
ہے ایک خنجر
یہ شرک سے چھڑاوے اُن کو اذیٰ
یہی ہے
یہی ہے
کیوں ہوگئے ہیں اس کے دشمن
یہ سارے گمراہ
یہ سارے گمراہ
وہ رہنما ئے رازِ چون و چرا یہی ہے
دیں غار میں چُھپا ہے اِک شور
کفر کا ہے
کفر کا ہے
اب تم دُعائیں کر لو غارِ حرا
یہی ہے
یہی ہے
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور
سارا
سارا
نام اُس کا ہے محمد دلبر مرا
یہی ہے
یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے
سے بہتر
سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ
یہی ہے
یہی ہے
پہلوں سے حوب تر ہے خوبی میں
اِک قمر ہے
اِک قمر ہے
اُس پر ہر ایک نظر ہے بدرالدّجٰی
یہی ہے
یہی ہے
پہلے تو رہ میں ہارے پار اِس
نے ہیں اُتارے
نے ہیں اُتارے
مَیں جاؤں اِس کے وارے بس ناخدا
یہی ہے
یہی ہے
پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی
رہ دکھائے
رہ دکھائے
دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی
ہے
ہے
وہ یارِ لامکانی۔ وہ دلبرِ
نہانی
نہانی
دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما
یہی ہے
یہی ہے
وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ
مرسلیں ہے
مرسلیں ہے
وہ طیّب وامیں ہے اُس کی ثنا
یہی ہے
یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ
کر دکھائے
کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا
یہی ہے
یہی ہے
آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل
یار سے قریں ہے
یار سے قریں ہے
ہاتھوں میں شمع دیں عین الضیا
یہی ہے
یہی ہے
جو راز دیں تھے بھارے اُس نے
بتائے سارے
بتائے سارے
دولت کا دینے والا فرماں روا
یہی ہے
یہی ہے
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا
ہی مَیں ہوا ہوں
ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس
فیصلہ یہی ہے
فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے
خزانہ
خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا
یہی ہے
یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد
ہے تُو خدایا
ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ
لقا یہی ہے
لقا یہی ہے
ہم تھے دِلوں کے اندھے سَو
سَو دِلوں پہ پھندے
سَو دِلوں پہ پھندے
پھر کھولے جس نے جندے6
وہ مجتبٰی یہی ہے
وہ مجتبٰی یہی ہے
اے میرے رب رحماں تیرے ہی ہیں
یہ احساں
یہ احساں
مشکل ہو تجھ سے آساں ہر دم
رجا یہی ہے
رجا یہی ہے
اے میرے یارجانی خود کر تو
مہربانی!
مہربانی!
ورنہ بلائے دنیا اِک اژدھا
یہی ہے
یہی ہے
دِل میں یہی ہے ہر دم تیرا
صحیفہ چوموں
صحیفہ چوموں
قرآں کے گِرد گھوموں کعبہ مرا
یہی ہے
یہی ہے
جلد آمرے سہارے غم کے ہیں بوجھ
بھارے
بھارے
مُنہ مت چُھپا پیارے میری دوا
یہی ہے
یہی ہے
کہتے ہیں جوش اُلفت یکساں نہیں
ہے رہتا
ہے رہتا
دِل پر مرے پیارے ہر دم گھٹا
یہی ہے
یہی ہے
ہم خاک میں ملے ہیں شاید ملے
وہ دلبر
وہ دلبر
جیتا ہوں اِس ہوس سے میری غذا
یہی ہے
یہی ہے
دنیا میں عشق تیرا باقی ہے
سب اندھیرا
سب اندھیرا
معشوق ہے تُو میرا عشقِ صفا
یہی ہے
یہی ہے
مشتِ غبار اپنا تیرے لئے اُڑایا
جب سے سُنا کہ شرطِ مہر و وفا
یہی ہے
یہی ہے
دلبر کا درد آیا حرفِ خودی
مٹایا
مٹایا
جب مَیں مرا، جلِایا، جامِ
بقا یہی ہے
بقا یہی ہے
اِس عشق میں مصائب سَو سَو
ہیں ہر قدم میں
ہیں ہر قدم میں
پر کیا کروں کہ اُس نے مجھ
کو دیا یہی ہے
کو دیا یہی ہے
حرفِ وفا نہ چھوڑوں اِس عہد
کو نہ توڑوں
کو نہ توڑوں
اُس دلبرِ ازل نے مجھ کو کہا
یہی ہے
یہی ہے
جب سے ملا وہ دلبر دشمن ہیں
میرے گھر گھر
میرے گھر گھر
دِل ہوگئے ہیں پتھر قدر و قضا
یہی ہے
یہی ہے
مجھ کو ہیں وہ ڈراتے پھر پھر
کے درپہ آتے
کے درپہ آتے
تیغ و تبر دکھاتے ہر سُو ہوا
یہی ہے
یہی ہے
دلبر کی رہ میں یہ دل ڈرتا
نہیں کسی سے
نہیں کسی سے
ہشیار ساری دنیا اِک باؤلا
یہی ہے
یہی ہے
اِس راہ میں اپنے قصّے تم کو
مَیں کیا سُناؤں
مَیں کیا سُناؤں
دُکھ درد کے ہیں جھگڑے سب ماجرا
یہی ہے
یہی ہے
دل کر کے پارہ پارہ چاہوں میں
اِک نظارہ
اِک نظارہ
دےوانہ مت کہو تم عقلِ رسا
یہی ہے
یہی ہے
اے میرے یارجانی کر خود ہی
مہربانی
مہربانی
مت کہہ کہ لَن تَرَانِیْ تجھ
سے رجا یہی ہے
سے رجا یہی ہے
فرقت بھی کیا بنی ہے ہر دم
میں جانکنی ہے
میں جانکنی ہے
عاشق جہاں پہ مرتے وہ کربلا
یہی ہے
یہی ہے
تیری وفا ہے پوری ہم میں ہے
عیب دُوری
عیب دُوری
طاعت بھی ہے ادھوری ہم پر بَلا
یہی ہے
یہی ہے
تجھ میں وفا ہے پیارے سچے ہیں
عہد سارے
عہد سارے
ہم جا پڑے کنارے جائے بُکا
یہی ہے
یہی ہے
ہم نے نہ عہد پالا یاری میں
رخنہ ڈالا
رخنہ ڈالا
پر تُو ہے فضل والا ہم پر کُھلا
یہی ہے
یہی ہے
اے میرے دل کے درماں ہجراں
ہے تیرا سوزاں
ہے تیرا سوزاں
کہتے ہیں جس کو دوزخ وہ جاں
گزا یہی ہے
گزا یہی ہے
اِک دیں کی آفتوں کا غم کھا
گیا ہے مجھ کو
گیا ہے مجھ کو
سینہ پہ دشمنوں کے پتّھر پڑا
یہی ہے
یہی ہے
کیونکر تبہ وہ ہووے کیونکر
فنا وہ ہووے
فنا وہ ہووے
ظالم جو حق کا دشمن وہ سوچتا
یہی ہے
یہی ہے
ایسا زمانہ آیا جس نے غضب ہے
ڈھایا
ڈھایا
جو پیستی ہے دیں کو وہ آسیا
یہی ہے
یہی ہے
شادابی و لطافت اِس دیں کی
کیا کہوں مَیں
کیا کہوں مَیں
سب خشک ہوگئے ہیں پُھولا پَھلا یہی ہے
آنکھیں ہر ایک دیں کی بے نُور
ہم نے پائیں
ہم نے پائیں
سُرمہ سے معرفت کے اِک سرمہ
سا یہی ہے
سا یہی ہے
لعلِ یمن بھی دیکھے دُرِّ عدن
بھی دیکھے
بھی دیکھے
سب جوہروں کو دیکھا دل میں
جچا یہی ہے
جچا یہی ہے
انکار کر کے اِس سے پچھتاؤگے
بہت تم
بہت تم
بنتا ہے جس سے سونا وہ کیمیا
یہی ہے
یہی ہے
پر آریوں کی آنکھیں اندھی ہوئیں
ہیں ایسی
ہیں ایسی
وہ گالیوں پہ اُترے دل میں
پڑا یہی ہے
پڑا یہی ہے
بدتر ہر ایک بد سے وہ ہے جو
بدزبان ہے
بدزبان ہے
جس دل میں یہ نجاست بیت الخلا
یہی ہے
یہی ہے
گوہیں بہت درندے انسان کے پوستےں
میں
میں
پاکوں کا خوں جو پیوے وہ بھیڑیا
یہی ہے
یہی ہے
کِس دیں پہ ناز اُن کو جو وید7کے
ہیں حامی
ہیں حامی
مذہب جو پھل سے خالی وہ کھوکھلا
یہی ہے
یہی ہے
اے آریو یہ کیا ہے کیوں دل
بگڑ گیا ہے
بگڑ گیا ہے
اِن شوخیوں کو چھوڑو راہِ حیا
یہی ہے
یہی ہے
مجھ کو ہو کیوں ستاتے سَو افترا
بناتے
بناتے
بہتر تھا باز آتے دُور از بلا
یہی ہے
یہی ہے
جس کی دُعا سے آخر لیکھو مرا
تھا کٹ کر
تھا کٹ کر
ماتم پڑا تھا گھر گھر وہ میرزا
یہی ہے
یہی ہے
اچھا نہیں ستانا پاکوں کا دل
دُکھانا
دُکھانا
گستاخ ہوتے جانا اس کی جزا
یہی ہے
یہی ہے
اِس دیں کی شان و شوکت یارب
مجھے دکھادے
مجھے دکھادے
سب جھوٹے دیں مٹاوے میری دُعا
یہی ہے
یہی ہے
کچھ شعر و شاعری سے اپنا نہیں
تعلق
تعلق
اِس ڈھب سے کوئی سمجھے بس مدعا
یہی ہے
یہی ہے
1۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
2۔اس جگہ وید کے لفظ سے وہ تعلیم مراد ہے جو آریہ سماج والوں نے
اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی
اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا
بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے
والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔
پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی
امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
اپنے زعم میں ویدوں کے حوالہ سے شائع کی ہے۔ ورنہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہم وید کی
اصل حقیقت کو خدا کے حوالہ کرتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ ان لوگوں نے اس میں کیا
بڑھایا اور کیا گھٹایا جبکہ ہندوستان اور پنجاب میں وید کی پَیروی کا دعویٰ کرنے
والے صدہا مذہب ہیں تو ہم کسی خاص فرقہ کی غلطی کو وید پر کیونکر تھوپ سکتے ہیں۔
پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وید بھی محرف ہو چکا ہے۔ پس بوجہ تحریف اس سے کسی بہتری کی
امید بھی لاحاصل ہے۔ منہ
3۔ یاد رہے کہ وید کی تعلیم سے مراد
ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہرکرتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہےاور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ
جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ
وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا
حاصل کرےاور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے اور اگر اس کا خاوند
کہیں سفر میں گیا ہوتو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا
تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس
آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا
مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی
کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند
سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاح سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ
ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں
کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد
رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں۔انہوں نے یہ باتیں
خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔
کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف
کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ
وید نے ایسی تعلیم دی ہواور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن
بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد
حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا
کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا
ہو تو اس صورت میں ایسی عور ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض
نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ
کا نتیجہ اچھا نہیں ہے ۔
ہماری اس جگہ وہ تعلیمیں اور وہ اصول ہیں جن کو آریہ لوگ اس جگہ ظاہرکرتے ہیں اور کہتے
ہیں کہ نیوگ کی تعلیم وید میں موجود ہےاور بقول ان کے وید بلند آواز سے کہتا ہے کہ
جس کے گھر میں کوئی اولاد نہ ہو یا صرف لڑکیاں ہوں تو اس کے لئے یہ ضروری امر ہے کہ
وہ اپنی بیوی کو اجازت دے کہ وہ دوسرے سے ہم بستر ہو اور اس طرح اپنی نجات کے لئے لڑکا
حاصل کرےاور گیارہ لڑکے حاصل کرنے تک یہ تعلق قائم رہ سکتا ہے اور اگر اس کا خاوند
کہیں سفر میں گیا ہوتو خود اس کی بیوی نیوگ کی نیّت سے کسی دوسرے آدمی سے آشنائی کا
تعلق پیدا کر سکتی ہے تا اس طریق سے اولاد حاصل کرلے اور پھر خاوند کے سفر سے واپس
آنے پر یہ تحفہ اس کے آگے پیش کرے اور اُس کو دکھاوے کہ تُو تو مال حاصل کرنے گیا تھا
مگر مَیں نے تیرے پیچھے یہ مال کمایا ہے۔ پس عقل اور انسانی غیرت تجویز نہیں کر سکتی
کہ یہ بے شرمی کا طریق جائز ہو سکے اور کیونکر جائز ہو حالانکہ اس بیوی نے اپنے خاوند
سے طلاق حاصل نہیں کی اور اس کی قیدِ نکاح سے اس کو آزادی حاصل نہیں ہوئی۔ افسوس بلکہ
ہزار افسوس کہ یہ وہ باتیں ہیں جو آریہ لوگ وید کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مگر ہم نہیں
کہہ سکتے کہ درحقیقت یہی تعلیم وید کی ہے ۔ ممکن ہے کہ ہندوؤں کے بعض جوگی جو مجرّد
رہتے ہیں اور اندر ہی اندر نفسانی جذبات ان کو مغلوب کرلیتے ہیں۔انہوں نے یہ باتیں
خود بنا کر وید کی طرف منسوب کردی ہوں یا تحریف کے طور پر وید میں شامل کر دی ہوں۔
کیونکہ محقق پنڈتوں نے لکھا ہے کہ ایک زمانہ وید پر وہ بھی آیا ہے کہ ان میں بڑی تحریف
کی گئی ہے اور اس کے بہت سے پاک مسائل بدلادیئے گئے ہیں۔ ورنہ عقل قبول نہیں کرتی کہ
وید نے ایسی تعلیم دی ہواور نہ کوئی فطرت صحیحہ قبول کرتی ہے کہ ایک شخص اپنی پاک دامن
بیوی کو بغیر اس کے کہ اُس کو طلاق دے کر شرعی طور پر اُس سے قطع تعلق کرے یونہی اولاد
حاصل کرنے کے لئے اپنے ہاتھ سے اس کو دوسرے سے ہمبستر کراوے کیونکہ یہ تو دیوثوں کا
کام ہے۔ ہاں اگر کسی عورت نے طلاق حاصل کرلی ہو اور خاوند سے کوئی اس کا تعلق نہ رہا
ہو تو اس صورت میں ایسی عور ت کو جائز ہے کہ دوسرے سے نکاح کرے اور اس پر کوئی اعتراض
نہیں ہے اور نہ اس کی پاک دامنی پر کوئی حرف۔ ورنہ ہم بلند آواز سے کہتے ہیں کہ نیوگ
کا نتیجہ اچھا نہیں ہے ۔
جس صورت میں آریہ سماج کے لوگ ایک طرف تو عورتوں کے پردہ کے مخالف ہیں کہ یہ مسلمانوں
کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا
رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو
سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جب کہ
ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدرناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ
وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ
سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور
بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا
ہو۔
کی رسم ہے۔ پھر دوسری طرف جبکہ ہر روز نیوگ کا پاک مسئلہ ان عورتوں کے کانوں تک پہنچتا
رہتا ہے اور ان عورتوں کے دلوں میں جما ہوا ہے کہ ہم دوسرے مردوں سے بھی ہمبستر ہو
سکتی ہیں تو ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ ایسی باتوں کے سُننے سے خاص کر جب کہ
ویدوں کے حوالہ سے بیان کی جاتی ہیں کس قدرناپاک شہوات عورتوں کی جوش ماریں گی بلکہ
وہ تو دس قدم اور بھی آگے بڑھیں گی اور جبکہ پردہ کا پُل بھی ٹوٹ گیا تو ہر ایک سمجھ
سکتا ہے کہ ان ناپاک شہوتوں کا سیلاب کہاں تک خانہ خرابی کرے گا۔ چنانچہ جگن ناتھ اور
بنارس اور کئی جگہ میں اس کے نمونے بھی موجود ہیں۔ کاش! اس قوم میں کوئی سمجھدار پیدا
ہو۔
اور ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ مکتی حاصل کرنے کے لئے اولاد کی ضرورت کیوں ہے۔
کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی
سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر
کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو
سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم
سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں
ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام
کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل
اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ
نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت
نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے
تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں
ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں
نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا
مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں
اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے
دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور
نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور
خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا
ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض
دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
کیا ایسے لوگ جیسے پنڈت دیانند تھا جس نے شادی نہیں کی اور نہ کوئی اولاد ہوئی مکتی
سے محروم ہیں؟ اور ایسی مکتی پر تو لعنت بھیجنا چاہئے کہ اپنی عورت کو دوسرے سے ہمبستر
کراکر اور ایسا فعل اس سے کراکر جو عام دنیا کی نظر میں زنا کی صورت میں ہی حاصل ہو
سکتی ہے اور بجز اس ناپاک فعل کے اور کوئی ذریعہ اُس کی مکتی کا نہیں۔ اور یہ بھی ہم
سمجھ نہیں سکتے کہ جو ہزاروں طاقتیں اور قوتیں اور خاصیتیں روحوں اور ذرّات اجسام میں
ہیں وہ سب قدیم سے خودبخود ہیں۔ پرمیشر سے وہ حاصل نہیں ہوئیں۔پھر ایسا پرمیشر کس کام
کا ہے اور اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ اور کیا وجہ کہ اس کو پرمیشر کہاجائے؟ اور کامل
اطاعت کا وہ کیونکر مستحق ہے جبکہ اس کی پرورش کامل نہیں اور جن طاقتوں کو اُس نے آپ
نہیں بنایا اُن کا علم اس کو کیونکر ہے اور جبکہ وہ ایک رُوح کے پیدا کرنے کی بھی قدرت
نہیں رکھتا تو کن معنوں سے اُس کو سرب شکتی مان کہا جاتا ہے جبکہ اُس کی شکتی صرف جوڑنے
تک ہی محدود ہے۔ میرا دل تو یہی گواہی دیتا ہے کہ یہ ناپاک تعلیمیں ویدمیں ہرگز نہیں
ہیں۔ پرمیشر تو تبھی پرمیشر رہ سکتا ہے جبکہ ہر ایک فیض کا وہی مبدء ہو۔ بیدانت والوں
نے بھی اگرچہ غلطیاں کیں مگر تھوڑی سی اصلاح سے ان کا مذہب قابلِ اعتراض نہیں رہتا
مگر دیانند کا مذہب تو سراسر گندہ ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ دیانند نے ان جھوٹے فلسفیوں
اور منطقیوں کی پیروی کی ہے جن کو وید سے کچھ بھی تعلق نہ تھا بلکہ وید کے درپردہ پکّے
دشمن تھے۔ اِسی وجہ سے اس کے مذہب میں پرمیشر کی وہ تعظیم نہیں جو ہونی چاہئے۔ اور
نہ پاک دل جوگیوں کی طرح پرمیشر سے ملنے کے لئے مجاہدات کی تعلیم ہے۔ صرف تعصّب اور
خدا کے پاک نبیوں کو کینہ اور گالیاں دینا ہی یہ شخص بدنصیب اپنے چیلوں کو سکھا گیا
ہے بلکہ یوں کہوکہ ایک زہر کا پیالہ پلا گیا ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا سب اعتراض
دیانند کے فرضی ویدوں پر ہے نہ خدا کی کسی کتاب پر۔ واللہ اعلم ۔ منہ
4۔۔ اگر ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جو خدا کے پاک نبیوں کو گالیاں نہیں دیتے اور
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
صلاحیت اور شرافت رکھتے ہیں وہ ہمارے اس بیان سے باہر ہیں۔ منہ
5۔یاد رہے کہ یہ ہماری رائے اُن آریہ سماج والوں کی نسبت ہے جنہوں نے اپنے اشتہاروں
اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا
گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر
شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ
اور رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ سے اپنی گندی طبیعت کا ثبوت دے دیا ہے اور ہزارہا
گالیاں خدا کے پاک نبیوں کو دی ہیں۔ جن کی اخبار اور کتابیں ہمارے پاس موجود ہیں مگر
شریف طبع لوگ اس جگہ ہماری مراد نہیں ہیں اور نہ وہ ایسے طریق کو پسند کرتے ہیں۔ منہ
6۔جندے سے مراد اس جگہ قفل ہے۔ چونکہ اس جگہ کوئی شاعری دکھلانا منظور نہیں اورنہ
میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے
ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری
سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ
میں یہ نام اپنے لئے پسند کرتا ہوں اس لئے بعض جگہ مَیں نے پنجابی الفاظ استعمال کئے
ہیں اور ہمیں صرف اردو سے کچھ غرض نہیں اصل مطلب امر حق کو دلوں میں ڈالنا ہے۔ شاعری
سے کچھ تعلق نہیں ہے۔ منہ
7۔یاد رہے کہ وید پر ہمارا کوئی حملہ نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کی تفسیر میں
کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے
ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ
وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
کیاکیا تصرف کئے گئے آریہ ورت کے صدہا مذہب اپنے عقائد کا ویدوں پر ہی انحصار رکھتے
ہیں حالانکہ وہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور باہم اُن کا سخت اختلاف ہے۔ پس ہم اس جگہ
وید سے مراد صرف آریہ سماج والوں کی شائع کردہ تعلیمیں اور اصول لیتے ہیں۔ منہ
نوٹ:۔ ایڈیشن اول میں یہ حاشیہ تو موجود ہے لیکن اس شعرکی نشان دہی نہیں کی گئی
جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
جس پر یہ حاشیہ ہے۔ ہم نے مضمون کو دیکھ کر یہ نشان لگایا ہے۔ (ناشر)
قادیان کے آریہ اور ہم مطبوعہ 1907ء