204۔ عاشقی جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ302

204۔ عاشقی
جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے

عاشقی
جتنی وفادار ہوئی جاتی ہے
دلبری
اتنی ہی دلدار ہوئی جاتی ہے
میرے
محبوب! مجھے چھوڑ گئے ہو تنہا
کیوں
خفا بندے سے سرکار ہوئی جاتی ہے
عشق
مظلوم ہے بے بس ہے نہ جانے کب سے
بے
بسی عادتِ ابرار ہوئی جاتی ہے
آج
بھی جلتے ہیں پروانے حضورِ شمع٭؎
حسن
سے عشق کی تکرار ہوئی جاتی ہے
عاشقو!
یار کے دربار میں فریاد کرو
عاشقی
طعنۂ اغیار ہوئی جاتی ہے
آج
پھر زور پہ ہے معرکۂ ظلمت و نور
منتشر
مجلسِ احرار ہوئی جاتی ہے
رقصِ
ابلیس کو اب روک بھی دے اے مولا
!
قوم
کی قوم گنہگار ہوئی جاتی ہے
خود
ہی آجاؤ یا مضطرؔ کو بلا لو اے دوست
!
زندگی
حسرتِ دیدار ہوئی جاتی ہے
١٩٥٣ء
٭۔۔۔۔۔۔ بروزن فعلن
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں