92۔ مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی بھی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ157

92۔ مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی
بھی

مجھ سے کہتی ہے یہ اب میری گراں جانی
بھی
کیا ابھی اَور کوئی رہتی ہے قربانی
بھی
شکل اس شوخ کی تھی ہم نے تو پہچانی
بھی
وہ جو اس عہد کے انکار کا تھا بانی
بھی
اب تو کہتے ہیں یہ غولانِ بیابانی بھی
عشق اس شہر کی عادت بھی ہے عریانی بھی
خوں بہا دے نہ سکا میرے لہو کا قاتل
یوں تو اس عہد میں تھی خون کی ارزانی
بھی
یہ الگ بات کہ ہو جاتی ہیں نظریں زخمی
ورنہ منظر سے لپٹنے میں ہے آسانی بھی
حسن خود مائلِ گفتار ہے لیکن مضطرؔ!
کچھ تو ہو اس کے لیے سلسلہ جنبانی بھی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں