429۔ متفرق اشعار

 

اشکوں کے چراغ ایڈیشن سوم  صفحہ625-628

429۔ متفرق اشعار

 

٭

محتاج ہے لفظ تیرے لب کا

مفہوم بھی منتظر ہے کب کا

 

چاہوں نہ اسے تو کس کو چاہوں

محبوب ہے وہ جو میرے رب کا

 

اللہ اسے طویل کر دے

یہ مرحلہ منتظر ہے کب کا

 

٭

جس روز تصوّر میں ملاقات ہوئی تھی

برسات کا موسم نہ تھا، برسات ہوئی تھی

 

دن کو بھی ملاقات ہوا کرتی ہے ان سے

اُس رات ملاقات گئی رات ہوئی تھی

 

دن رات کیا کرتا ہوں اب ذکر اسی کا

جس رات اکیلے میں ملاقات ہوئی تھی

 

٭

تہمتِ چند ساتھ لے کے چلے

زندگی کی زکٰوۃ لے کے چلے

 

پیاس اتنی شدید تھی اب کے

ساتھ نہر فرات لے کے چلے

 

عقل و ہوش و حواس، وہم و گماں

کتنے لات و منات لے کے چلے

 

٭

جو کہنا ہے کھل کر کہا جائے ناں

اگر کہہ بھی دیں تو سنا جائے ناں

 

یہ دل ہی تو ہے اس کا کیا کیجئے

کہ آنے لگے ہے تو آ جائے ناں

 

گلی کوچے ربوے کے ہیں منتظر

اسے بھی کہو کہ وہ آ جائے ناں

 

٭

ہر گز وہ خموشی سے نہ انکار سے نکلے

جو کام مری جرأت اظہار سے نکلے

 

کیا جانیے کیا ان کا ارادہ تھا سرِشام

سائے جو بھرے شہر کی دیوار سے نکلے

 

٭

فرقت کا چاک اب کے برس بھی نہ سِل سکا

میں سنگِ راہ اپنی جگہ سے نہ ہل سکا

 

مضطر ؔکو اس کی شامتِ اعمال کے سبب

اب کے برس بھی اذنِ حضوری نہ مل سکا

1908ء

 

٭

قریب تھا کہ مرا حال مجھ پہ کھل جاتا

مرا ضمیر ترازو کے تول تل جاتا

 

نہیں تھی تاب مجھے اپنے اشکِ عریاں کی

سنبھل کے ملتا تو سارا وجود دُھل جاتا

 

٭

گُھپ اندھیرا بھی بہت زیادہ تھا اندازے سے

روشنی لوٹ گئی شہر کے دروازے سے

 

پھول وہ پھول جو محتاج نہیں موسم کا

حسن وہ حسن جو مانوس نہیں غازے سے

 

٭

عجمی ہوں نہ میں اعرابی ہوں

گرد بادِ رہِ بے تابی ہوں

 

حالتِ جنگ میں رہتا ہوں سدا

اُحَدی ہوں کبھی اَحزابی ہوں

 

٭

جو خواب دیکھوں تو خواب اس کا ہو

سوال اسی کا جواب اس کا ہو

 

٭

فرازِدار سے اُتروں تو کوئی بات کروں

زمیں پہ دن کو گزاروں فلک پہ رات کروں

 

٭

جسم خالی ہے جان خالی ہے

در کھلے ہیں مکان خالی ہے

 

٭

اور بات ہے اس کو آنکھ پڑھ نہیں سکتی

ہاتھ کی ہتھیلی پر کچھ لکھا تو ہوتا ہے

 

٭

دل ہے درِ حبیب ہے اور اذنِ عام ہے

اے بے ادب سنبھل یہ ادب کا مقام ہے

 

٭

کہو تم جانور کتنے ہو اور انسان کتنے ہو

اگر گننے پہ آجاؤں تو میری جان کتنے ہو؟

 

٭

پھول مسکرائیں گے تیرے مسکرانے سے

اپنا غم چھپا لیں گے ہم بھی اس بہانے سے

 

 

چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں