
35۔اِنذاروتبشیر
اِنذاروتبشیر
پھر چلے آتے ہیں یارو زلزلہ
کے آنے کے دن
کے آنے کے دن
زلزلہ کیا ہے اِس جہاں سے کُوچ
کر جانے کے دن
کر جانے کے دن
تُم تو ہو آرام میں ۔پر اپنا
قصہ کیا کہیں
قصہ کیا کہیں
پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے سخت
گھبرانے کے دن
گھبرانے کے دن
کیوں غضب بھڑکا؟ خدا کا مجھ
سے پوچھو غافلو!
سے پوچھو غافلو!
ہو گئے ہیں اس کا موجب میرے
جھٹلانے کے دن
جھٹلانے کے دن
غیر کیا جانے کہ غیرت اُس کی
کیا دکھلائے گی
کیا دکھلائے گی
خود بتائے گا انھیں وہ یار
بتلانے کے دن
بتلانے کے دن
وہ چمک دکھلائے گا اپنے نشان
کی پنج بار
کی پنج بار
یہ خدا کا قول ہے سمجھو گے
سمجھانے کے دن
سمجھانے کے دن
طالبو! تم کو مبارک ہو کہ اب
نزدیک ہیں
نزدیک ہیں
اُس مرے محبوب کے چہرہ کے دکھلانے
کے دن
کے دن
وہ گھڑی آتی ہے جب عیسٰی پکاریں
گے مجھے
گے مجھے
اب تو تھوڑے رہ گئے دجال کہلانے
کے دن
کے دن
اے مِرے پیارے! یہی میری دعا
ہے روز و شب
ہے روز و شب
گود میں تیری ہوں ہم اُس خونِ
دِل کھانے کے دن
دِل کھانے کے دن
کرمِ خاکی ہوں مرے پیارے نہ
آدم زاد ہوں
آدم زاد ہوں
فضل کا پانی پلا اس آگ برسانے
کے دن
کے دن
اے مرے یارِ یگانہ اے مری جاں
کی پناہ
کی پناہ
کر وُہ دِن اپنے کرم سے دیں
کے پھیلانے کے دن
کے پھیلانے کے دن
پھر بہارِ دیں کو دِکھلا اے
مرے پیارے قدیر
مرے پیارے قدیر
کب تلک دیکھیں گے ہم لوگوں
کے بہکانے کے دن
کے بہکانے کے دن
دن چڑھا ہے دُشمنانِ دیں کا
ہم پر رات ہے
ہم پر رات ہے
اے مِرے سُورج دِکھا اس دیں
کے چمکانے کے دن
کے چمکانے کے دن
دل گھٹا جاتا ہے ہر دم جاں
بھی ہے زیر و زبر
بھی ہے زیر و زبر
اک نظر فرما کہ جلد آئیں ترے
آنے کے دن
آنے کے دن
چہرہ دکھلا کر مجھے کر دیجئے
غم سے رہا
غم سے رہا
کب تلک لمبے چلے جائیں گے ترسانے
کے دن
کے دن
کچھ خبر لے تیرے کوچہ میں یہ
کس کا شور ہے
کس کا شور ہے
کیا مِرے دلدار تُو آئے گا
مَر جانے کے دن
مَر جانے کے دن
ڈوبنے کو ہے یہ کشتی۔ آ مِرے
اے ناخُدا
اے ناخُدا
آگئے اس باغ پر اے یار مُرجھانے
کے دن
کے دن
تیرے ہاتھوں سے مرے پیارے اگر
کچھ ہو تو ہو
کچھ ہو تو ہو
ورنہ دیں میّت ہے اور یہ دن
ہیں دفنانے کے دن
ہیں دفنانے کے دن
اِک نشاں دکھلا کہ اب دِیں
ہو گیا ہے بے نشاں
ہو گیا ہے بے نشاں
دل چلا ہے ہاتھ سے لا جلد ٹھہرانے
کے دن
کے دن
میرے دل کی آگ نے آخر دکھایا
کچھ اثر
کچھ اثر
آ گئے ہیں اب زمیں پر آگ بھڑکانے
کے دن
کے دن
جب سے میرے ہوش غم سے دیں کے
ہیں جاتے رہے
ہیں جاتے رہے
طور دنیا کے بھی بدلے ایسے
دیوانے کے دن
دیوانے کے دن
چاند اور سورج نے دکھلائے ہیں
دو داغِ کسوف
دو داغِ کسوف
پھر زمیں بھی ہو گئی بے تاب
تھرّانے کے دن
تھرّانے کے دن
کون روتا ہے کہ جس سے آسماں
بھی رو پڑا
بھی رو پڑا
لرزہ آیا اس زمیں پر اس کے
چِلّانے کے دن
چِلّانے کے دن
صبر کی طاقت جو تھی مجھ میں وہ پیارے اب نہیں
میرے دلبر اب دِکھا اِس دل
کے بہلانے کے دن
کے بہلانے کے دن
دوستو اُس یار نے دیں کی مصیبت
دیکھ لی
دیکھ لی
آئیں گے اِس باغ کے اب جلد
لہرانے کے دن
لہرانے کے دن
اک بڑی مدت سے دِیں کو کُفر
تھا کھاتا رہا
تھا کھاتا رہا
اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو
کھانے کے دن
کھانے کے دن
دن بہت ہیں سخت اور خوف و خطر
درپیش ہے
درپیش ہے
پر یہی ہیں دوستو اُس یار کے
پانے کے دن
پانے کے دن
دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں
پر شور ہے
پر شور ہے
اب گیا وقتِ خزاں آئے ہیں پھل
لانے کے دن
لانے کے دن
چھوڑ دو وہ راگ جس کو آسماں
گاتا نہیں
گاتا نہیں
اب تو ہیں اے دل کے اندھو!
دیں کے گُن گانے کے دن
دیں کے گُن گانے کے دن
خدمتِ دیں کا تو کھو بیٹھے
ہو بُغض و کیں سے وقت
ہو بُغض و کیں سے وقت
اب نہ جائیں ہاتھ سے لوگو!
یہ پچھتانے کے دن
یہ پچھتانے کے دن
خاتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ آخرمطبوعہ
1907ء
1907ء