
255۔ اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی
اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ377
کے چراغ ایڈیشن 2011 صفحہ377
255۔ اپنا
اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر بھی
اپنا اپنا تھا، پرایا تھا پرایا پھر
بھی
بھی
وہ عجب ہے کہ مری اور٭؎ نہ آیا پھر
بھی
بھی
ہمہ تن گوش تھا مَیں سوچ کے سنّاٹے
میں
میں
اس نے کیوں لفظ کا پتھر نہ گرایا پھر
بھی
بھی
وہ پسِ پردۂ جاں روز ملا کرتا ہے
اس نے کھل کر نہ کبھی ہاتھ ملایا پھر
بھی
بھی
مجھ کو معلوم ہے اس شوخ کو صدمہ ہو
گا
گا
لے کے چھوڑوں گا مَیں کرسی کا کرایہ
پھر بھی
پھر بھی
چاند موجود تھا، تارے بھی تھے رستے
میں کھڑے
میں کھڑے
راہ گم کردہ نہ کیوں راہ پر آیا پھر
بھی
بھی
نہ مَیں سورج، نہ ستارہ، نہ مَیں چہرہ
مضطرؔ!
مضطرؔ!
مجھ سے ڈرتا ہے بھرے شہر کا سایہ پھر
بھی
بھی
٭۔۔۔۔۔۔”اور” بر وزن شوربمعنی طرف
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی