32۔ ا س عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ کی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ75۔77

32۔ ا س عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ  کی

ا س عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ  کی
کم ہو گئی ہے لفظ میں طاقت ضمیر کی
سودا نہ کر کہ لفظ میں طاقت ہے بے شمار
ہے چار دن کی بات امیر و سفیر کی
تو صاحب سخن ہے تو خلوت پہ ناز کر
مت جا وہاں جہاں ہو صدارت وزیر کی
ایسا بھی کیا یہ نشّہ ِ دنیا کہ آدمی
فریاد سن نہ پائے خود اپنے ضمیر کی
واں یہ زمانہ کیا ہے یہ ابنِ زمانہ
کیا
وہ اورسلطنت ہے خدائے کبیر کی
اے میرے ظرف اور بھی ہو جا کشادہ تر
جب بات دوست کے ہو سرشت و خمیر کی
گر ختم ہو تو کیسے فضا دار و گیر کی
نیت ہی اور کچھ ہے گروہِ شریر کی
ہر آن ایک حشر قیامت ہے زندگی
پہنچے اگر مدد نہ مرے دستگیر کی
تیرا یہ تیر مجھ کو لگے بھی تو میں
ہزار
لیکن وہ شست تیری طرف ہے جو تیر کی
قیدِ قفس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے ملک ملک
وہ زندگی جو اب ہے وطن کے اسیر کی
روشن ہوا جو ایک نئی زندگی کے نام
لوگوں نے اس دئیے میں بھی ظلمت اسیر
کی
وہ شمعِ بزم کون تھا پروانے کون تھے
جو سن رہے تھے رات غزل اس فقیر کی
وہ اوج شاعری ہو کہ ہو موجِ زندگی
تم کو دعائیں خوب لگیں اپنے پیر کی
1997ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں