59۔ آزادی

یہ
زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ61۔62

59۔ آزادی

آزادی
میری قید میں رہنے والوں کا
میں نے خود دروازہ کھولا تھا
انجانے اور جانے پن کی بات نہیں
بس یونہی
شاید گہری نیند سے اٹھنا آزادی ہے
آزادی کے ہاتھ کی طاقت
اور سبھی ہاتھوں سے بڑی ہے
کتنی رات پڑی ہے
صبح تلک اک دو شاید اور نہ ہوں
جتنی دیر تلک جینا ہے
اتنی دیر تلک
کوئی شام دھنک
اسی ایک زمیں پر کئی فلک
سایوں کی طرح
ماؤں کی طرح
اِک ٹھنڈک دیں
اور جب آنکھ کھلے
تو آزادی کے نام کھلے
میں جب قید میں ہوں تو میں نے
اپنی قید میں رہنے والوں کا
دروازہ کیسے کھولا تھا
1978ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں