189۔ اب تو فراقِ صبح میں بجھنے لگی حیات

یہ
زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں
صفحہ159۔160

189۔ اب تو فراقِ صبح میں
بجھنے لگی حیات

اب
تو فراقِ صبح میں بجھنے لگی حیات
بارِ
الٰہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات
جاگے
کوئی ستارۂ صبحِ یقیں کہ پھر
سر
سے بلند ہوگیا سیلِ توہّمات
ہر
تیرگی میں تُو نے اُتاری ہے روشنی
اب
خود اُتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات
کچھ
آئینے سے رکھے ہوئے ہیں سرِ وجود
اور
اِن میں اپنا جشن مناتی ہے میری ذات
بولے
نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی
نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
اے
گردشِ زمیں مجھے آنکھوں میں اپنی دیکھ
میں
ہوں‘ مگر یہ خواب نہیں میرے بے ثبات
1973ء
عبید اللہ علیم ؔ

اپنا تبصرہ بھیجیں