73۔ معرفتِ الٰہی

بخار
دل صفحہ188۔191

73۔
معرفتِ الٰہی

1۔ خدا شناسی اور معرفت کا حاصل کرنا ہر مومن کا
فرضِ مُقَدَّم ہے
چھ
سات سال کا ذکر ہے کہ ایک دن میں بیت الفکر میں لیٹا ہوا اُونگھ رہا تھا اور یہ نظارہ
دیکھ رہا تھا کہ کوئی آدمی عُہدوں کی بابت ذکر کر رہا ہے۔ اتنے میں کسی نے زور سے میری
چارپائی ہلائی اور میں یہ الفاظ کہتا ہوا بیدار ہوگیا کہ ”میں تو ان باتوں کو نہ چاہوں
نہ مانگوں” (یعنی عُہدے) اس پر میں نے یہ شعر لکھے ہیں۔ مدِّنظر یہ خیال ہے کہ معرفتِ
الٰہی اور خدا شناسی ہر مومن کا پہلا فرض ہے۔ کیونکہ بغیر معرِفت کے محبت اور تعلق
پیدا نہیں ہوسکتے بلکہ ایسا خیال ہی لَغ:و ہے۔ اور بغیر خدا شناسی کے آدمی کسی عہدے
پر پہنچ بھی جائے تو وہ اُس کے لئے اِبتلا ہے نہ کہ اِنعام اور مجھے تو اس دن سے اس
لفظ سے ہی نفرت ہوگئی ہے۔
میں تو عُہدوں کو نہ مانگوں اور نہ
چاہوں اے عزیز
مجھ کو کیا عُہدوں سے میرا کام ہے عرفانِ
یار
معرِفت بُنیاد ہے عشقِ و مَحبت کی مُدام
اور مَحبت کھینچتی ہے نعمتِ رِضوانِ
یار
جب رضا ہم کو ملی سمجھو کہ سب کچھ مل
گیا
قُربِ یار و وصلِ یار و لُطفِ بے پایانِ
یار
2- دنیا میں دِیدار اِلٰہی آنکھوں سے نہیں بلکہ
کسی قدر عقل سےاور زیادہ تر نِشانات کے ذریعہ ہوتا ہے
جس پہ بے دیکھے مریں وہ آپ کی سرکار
ہے
آنکھ ہے لاچار’ یاں’ گو عقل کچھ بیدار
ہے
عقل سے ممکن ہے اِدراکِ صفاتِ ذُوالجلال
ورنہ ہر حِس جسمِ انسانی کی یاں بیکار
ہے
انبیاء کے ہاتھ پر ہوتا ہے لیکن جو
ظُہور
اس قدر پُر زور ہے – گویا کہ وہ دیدار
ہے
ذرّے ذرّے میں نظر آتا ہے وہ زندہ خدا
نُصرتوں اور غیب کی ہوتی عجب بھرمار
ہے
ہم نے اپنی آنکھ سے دیکھا مسیحِ پاکؑ
کو
یوں نِشاں آتے تھے جیسے اک مسلسل دھار
ہے
اَلغَرَض ہوتا ہے آلہ حق شناسی کا رسول
نُور ہے مرسِل تو مرسَل مَطلَعُ الاَنوار
ہے
3- دِیدارِ اِلٰہی معرفت ہی کا دوسرا نام ہے
تو جسم ہے وہ رُوح ہے ۔ آئے گا نہ ہرگز
آنکھوں سے نظر تجھ کو وہ سرکارِ الٰہی
دُنیا ہو کہ عُقبیٰ ہو صِفات اُس کے
ہیں ظاہِر
عرفانِ خدا ہی تو ہے دیدارِ الٰہی
4- مَیں نے خدا کو نشانوں سے پہچانا نہ کہ عقل
سے
5 نومبر 1936ء جمعرات صبح 5 بجے کا ذکر ہے کہ
اوپر والا فقرہ میری زبان پر جاری ہوا۔ اتفاقاً آج ایک کاپی میں مجھے اس تاریخ کا یہ
نوٹ مل گیا جس پر میں نے اس کا مضمون نظم کر دیا۔
کہہ دو یہ نکتہ طالبِ عرفان و وصل سے
مِلتی خدا شناسی ہے محض اُس کے فضل
سے
آتی ہے معرِفت بھی نِشانوں کی معرِفت
پاتا نہیں خدا کو کوئی صرف عقل سے
5- دُعا برائے معرفت
آنکھیں جو کھلیں دِل کی، تو دِیدار
ہے ہر جا
اور بند ہوں توعرش کے آگے بھی ہے اندھا
عِرفان سے کر میرے خدا دل کو مُنَوَّر
دُنیا میں اور عُقبیٰ میں ہے بے اس
کے اندھیرا
الفضل 9جولائی1943ء

اپنا تبصرہ بھیجیں