23۔ وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب تھا

کلام
محمود صفحہ44

23۔ وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب
تھا

وہ خواب ہی میں گر نظر آتے تو خوب
تھا
مرتے ہوئے کو آکے جِلاتے تو خوب تھا
اس بے وفا سے دل نہ لگاتے تو خوب تھا
مٹی میں آبرو نہ ملاتے تو خوب تھا
دلبر سے رابطہ جو بڑھاتے تو خوب تھا
یوں عمر رائیگاں نہ گنواتے تو خوب تھا
اک غمزدہ کو چہرہ دکھاتے تو خوب تھا
روتے ہوئے کو آکے ہنساتے تو خوب تھا
اک لفظ بھی زباں پہ نہ لاتے تو خوب
تھا
دنیا سے اپنا عشق چھپاتے تو خوب تھا
نظروں سے اپنی تم نہ گراتے تو خوب تھا
پہلے ہی ہم کو منہ نہ لگاتے تو خوب
تھا
محمود دل خدا سے لگاتے تو خوب تھا
شیطاں سے دامن اپنا چھڑاتے تو خوب تھا
یونہی پڑے نہ باتیں بناتے تو خوب تھا
کچھ کام کرکے ہم بھی دکھاتے تو خوب
تھا
دنیائے دُوں کو آگ لگاتے تو خوب تھا
کوچہ میں اس کے دھونی رماتے تو خوب
تھا
آبِ حیات پی کے خضرؑ تم نے کیا لیا
تم اُس کی راہ میں خون لنڈھاتے تو خوب
تھا
اے کاش! عقل عشق میں دیتی ہمیں جواب
دیوانہ وار شور مچاتے تو خوب تھا
مدت سے ہیں بھٹک رہے وادی میں عشق کی
وہ خود ہی آکے راہ دکھاتے تو خوب تھا
عزت بھی اس کی دوری میں بے آبروئی
ہے
کوچہ میں اس کے خاک اڑاتے تو خوب تھا
بحرِ گنہ میں پھر کبھی کشتی نہ ڈوبتی
ہم نا خدا خدا کو بناتے تو خوب تھا
فرقت میں اپنا حال ہوا ہے یہاں جو غیر
احباب ان کو جاکے سناتے تو خوب تھا
اخبار بدر جلد 8۔14جنوری  1909ء

اپنا تبصرہ بھیجیں