54۔ آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی

کلام
محمود صفحہ100۔101

54۔ آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی

آریوں کو میری جانب سے سنائے کوئی
ہو جو ہمت تو میرے سامنے آئے کوئی
مردِ میدان بنے اپنے دلائل لائے
گھر میں بیٹھا ہوا باتیں نہ بنائے کوئی
آسمانی جو شھادت ہو اسے پیش کرے
یونہی بے ہودہ نہ بے پر کی اُڑائے کوئی
سچا مذہب بھی ہے پر ساتھ دلائل ہی نہیں
ایسی باتیں کسی احمق کو سنائے کوئی
ہے وہ صیاد جسے صید سمجھ بیٹھے ہیں
ان کی عقلوں سے یہ پردہ تو اُٹھائے
کوئی
بیٹھ کر شیش محل میں نہ کرے نادانی
ساکنِ قلعہ پہ پتھر نہ چلائے کوئی
تاک میں لشکرِ محمودؔ ابھی بیٹھا ہے
یاں سمجھ کر ذرا ناقوس بجائے کوئی
ہم ہیں تیار بتانے کو کمالِ قرآں
خوبیاں وید کی بھی ہم کو بتائے کوئی
کس طرح مانیں کہ مولیٰ کی ہدایت ہے
وہ
وید کو جب نہ پڑھے اور نہ پڑھائے کوئی
ایسی ویسی جو کوئی بات نہ ہو ویدوں
میں
ان کو اس طرح سے کیوں گھر  میں چھپائے کوئی
خود ہی جب وید  کےپڑھنے سے وہ محروم رہے
پھر کسی غیر کو کس طرح سکھائے کوئی
یہ نظم اندازًا 1920ء کی ہے ۔مجلۃ الجامعۃ ربوہ  مصلح موعود نمبر جلد4نمبر2صفحہ136

اپنا تبصرہ بھیجیں