144۔ سنانے والے افسانے ہما کے

کلام
محمود صفحہ208

144۔ سنانے والے افسانے ہما کے

سنانے والے افسانے ہما کے
کبھی دیکھے بھی ہیں بندے خدا کے
نہ واپس آیادل اس در پہ جا کے
وہیں بیٹھا رہا دھونی رما کے
بھٹکتے پھر رہے ہو سب جہاں میں
لیا کیا تم نے دلبر کو بُھلا کے
درِمے خانہ پا کر بند اے شیخ !
چلے ہیں آپ بھی گھر کو خداکے
یہ تم کو ہوگیا کیا اہل ملت
نہیں کیا یاد وہ وعدے خداکے
کیا کرتے ہیں ہم سیر دو عالم
کسی کو پہلو میں اپنے بٹھا کے
خدا ہی نے لگائی پار کشتی
اٹھائے یونہی احساں ناخداکے
مجھے دلگیر جب بھی دیکھتے ہیں
بٹھا لیتے ہیں پاس اپنے بلا کے
کسی دن لے کے چھوڑیں گے وہ یہ مال
بھلا رکھو کے کب تک دل چھپا کے
جو پھرنکلو تو جو چاہو سو کہنا
ذرا دیکھو تو اس محفل میں آکے
جنھوں نے ہوش مہ خانہ میں کھوئے
وہ کیا لیں گے بھلا مسجد میں جا کے
یزیدی شان کے مالک ادھر آ
مناظر دیکھتا جا کربلا کے
مرے کانوں میں آوازیں خد کی
ترے کانوں میں ایچ بم کے دہماکے
مری امید وابستہ فلک سے
تری نظروں میں اس دنیا کے خاکے
ملا تجھ کو نہ کچھ دنیا میں آکے
نہ تُو دیکھے گا راحت یاں سے جا کے
اخبار الفضل جلد 4 ۔ 10مئی 1950ء۔ لاہور پاکستان

اپنا تبصرہ بھیجیں