226۔ ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ335

226۔ ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا

ہونے کو وہ شوخ بہت مشہور ہؤا
جانے کیوں بالآخر نامنظور ہؤا
اشک پہ جب الزام لگا عریانی کا
فرطِ حیا سے اور بھی چکنا چور ہؤا
مٹتے مٹتے داغ مٹیں گے دامن کے
چھینٹوں کا یہ دور بہت بھرپور ہؤا
ننگ دھڑنگ اک ٹیلہ پیلے پتھر کا
عشق کی آگ میں جل کر کوہِ طور ہؤا
دل بھی ایک عجائب گھر ہے یادوں کا
جتنا پاس آیا اتنا ہی دور ہؤا
آخر پتھر پگھلا ضبطِ تکلُّم سے
کوہِ ندا کا بن باسی مجبور ہؤا
اپنے جہلِ مرکب میں وہ سمجھتا ہے
میرے قتل سے عند اللّٰہ ماجور ہؤا
دونوں پر افتاد پڑی محرومی کی
ایبٹ آباد ہؤا یا لائل پور ہؤا
کٹتے کٹتے رات کٹی مجبوروں کی
دیکھتے دیکھتے اندھیارا کافور ہؤا
مانگنے والے! مانگ کہ اب بھی ملتا ہے
دل کا چین ہؤا، آنکھوں کا نور ہؤا
مضطرؔ! ہم بھی عرض کریں گے جاناں سے
فرطِ ادب سے دل نہ اگر مجبور ہؤا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں