225۔ یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ334

225۔ یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا

یہ کرم ہو گیا یا ستم ہو گیا
دفعۃً ہو گیا، ایک دم ہو گیا
گھر سے نکلا تھا جو روکنے کے لیے
ساتھ چلنے لگا، ہم قدم ہو گیا
بار کچھ تو امانت کا ہلکا ہؤا
ہاتھ کاٹے گئے، سر قلم ہو گیا
بر سرِ دار ہم بھی بلائے گئے
فاصلہ باہمی اور کم ہو گیا
بات کی تھی سرِ راہ اک سرسری
ذکر اس کا عدم تا عدم ہو گیا
یہ گلی کس کی ہے، سنگِ در کس کا ہے
کیوں جبیں جُھک گئی، سر بھی خم ہو گیا
یہ بھی اچھا ہؤا منصفو! ثالثو!
خونِ ناحق سے کچھ شور کم ہو گیا
پھر لہو رنگ ہے سرزمینِ وفا
پھر یہ خطہ بھی رشکِ ارم ہو گیا
تم سمجھتے ہو مضطرؔ! اُتر جائے گا؟
یہ جنوں تم کو جو ایک دم ہو گیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں