220۔ نذرِ آتشؔ بصد ادب

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ327۔328

220۔ نذرِ آتشؔ بصد ادب

در کھٹکھٹا رہا ہے قفس کا زمانہ کیا
آہٹ کا جو اسیر تھا وہ بھی نہ مانا
کیا
پتّا کوئی ہِلا تو پرندہ لرز گیا
شاخِ نہالِ غم پہ کِیا آشیانہ کیا
مجھ کو یہ ڈر ہے تُو کہیں ناراض ہو
نہ جائے
ان کو یہ خوف ہے کہ کہے گا زمانہ کیا
اب ڈھونڈتے پھرو ہو عبث اپنے آپ کو
آئے تھے شہرِ ذات میں تم فاتحانہ کیا
جینا اگر محال تھا اس اژدہام میں
مرنے کا بھی نہ مل سکا تم کو بہانہ
کیا
عہدِ غمِ فراق کی جنگِ عظیم میں
دل بھی لڑے گا عقل کے شانہ بشانہ کیا
فتووں کے لین دین پہ قدغن نہیں رہی
حل ہو گیا یہ مسئلہ بھی تاجرانہ کیا
جس کے نصیب میں ہو ”کھلے شہر”کی صلیب
اس خوش نصیب کی ہو خوشی کا ٹھکانہ کیا
اس کو کرو کمال اتاترک کے سپرد
مُلاّ کو آزمانے کے بعد آزمانا کیا
اک زلزلہ سا آ گیا ایوانِ اشک میں
مضطرؔ پہ مہرباں ہؤا دشمن پرانا کیا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں