218۔ بے سبب اور بے صدا ٹوٹا

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ218۔219

218۔ بے سبب اور بے صدا ٹوٹا

بے سبب اور بے صدا ٹوٹا
اشک اندر سے بارہا ٹوٹا
حشر آواز کا ہؤا برپا
قفل جب بھی سکوت کا ٹوٹا
عکس سے عکس کی صداقت تک
آئنوں کا نہ سلسلہ ٹوٹا
دیکھ کر بھی نہ اس کو دیکھ سکے
آنکھ کا جو بھرم بھی تھا، ٹوٹا
اور جتنے تھے آسرے ٹوٹے
ایک تیرا نہ آسرا ٹوٹا
سخت تھا زندگی کا پھیر بہت
مشکلوں سے یہ دائرہ ٹوٹا
تاب کب لا سکا صداقت کی
فرطِ لذّت سے آئنہ ٹوٹا
بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے
ٹوٹ کر بھی نہ رابطہ ٹوٹا
بات ہوتی رہی اِشاروں میں
گفتگو کا نہ سلسلہ ٹوٹا
کتنے طوفاں گزر گئے سر سے
زندگی کا نہ بُلبلا ٹوٹا
ہم ہی کچھ سخت جان تھے مضطرؔ!
دلِ ناداں تو بارہا ٹوٹا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں