217۔ جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ321۔322

217۔ جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی

جلنے لگا مکاں تو گلی سوچنے لگی
ننگی نکور دھوپ جلی سوچنے لگی
آنکھیں اُگی ہوئی تھیں گلی میں، مگر
گلی
پھر بھی نہ سوچنے سے ٹلی، سوچنے لگی
سوئی ہوئی تھی عمرِ گزشتہ کی سیج پر
جاگی تو مسکرا کے کلی سوچنے لگی
روٹھی ہوئی تھی زندگی سوکھی زمین سے
بارش ہوئی تو اچھی بھلی سوچنے لگی
واپس کبھی تو آئیں گے مالک مکان کے
خالی مکاں کی بند گلی سوچنے لگی
ڈھلنے کو رات ہجر کی ڈھل تو گئی مگر
اک بار ڈھل کے پھر نہ ڈھلی، سوچنے لگی
شبنم جو چھپ کے پھول سے اُتری تھی پھول
پر
خوشبو کا خون پی کے ٹلی، سوچنے لگی
زخموں کو سی رہی تھی گزرتی ہوئی صدی
اشکوں نہائی پلکوں پلی سوچنے لگی
ان خشک سالیوں کی کوئی انتہا بھی ہو
بن میں جہاں جہاں تھی کلی سوچنے لگی
مقتل میں بہرِ گفتگو آئی تھی زندگی
جب گفتگو نہ آگے چلی، سوچنے لگی
سولی بھی اُس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ
یہ
اللّٰہ کا ہے کوئی ولی، سوچنے لگی
حیران تھی زمین کہ اہلِ زمین نے
چہروں پہ کیوں بھبھوت ملی، سوچنے لگی
جب بھی گری زمین پہ بچّے کے ہاتھ سے
مٹی کی چُورچُور ڈلی سوچنے لگی
صورت جو انتظار کے ماتھے پہ ثبت تھی
کیا جانے کیا محمد علی! سوچنے لگی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں