214۔اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ 315۔316

214۔اشک جو آنکھ کے قفس میں ہے

اشک
جو آنکھ کے قفس میں ہے
ایک
سجدے کی دسترس میں ہے
دلِ
ناداں! یہ عشق کا الزام
تیرے
بس میں نہ میرے بس میں ہے
صبحِ
صادق بھی امتحان ہے ایک
ابتلا
ایک چاند رس میں ہے
رقص
ہے ایک دل کی دھڑکن میں
ایک
دُھرپَد نفس نفس میں ہے
ایک
گمنام آتشِ خاموش
اب
بھی موجود خار و خس میں ہے
اس
کی حد ہے نہ کوئی سرحد ہے
تُو
نظربند جس قفس میں ہے
سامنے
ہے قیامتِ صغریٰ
اور
تُو ہے کہ پیش و پس میں ہے
معترض!
مجھ کو بھی ہوس ہے ایک
فرق
لیکن ہوس ہوس میں ہے
نہ
ترے کام سے ہے مجھ کو کام
نہ
ترا جھوٹ میرے بس میں ہے
آج
وہ بھی ہے دَرپئے آزار
جو
نہ دو چار میں، نہ دس میں ہے
مَیں
قفس میں تو ہوں مگر مضطرؔ
!
اک
مزہ ہے جو اس قفس میں ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں