148۔ آہٹ کا اژدہام بھی زنداں صدا کا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ227

148۔ آہٹ کا اژدہام بھی زنداں صدا کا ہے

آہٹ کا اژدہام بھی زنداں صدا کا ہے
آواز ایک سلسلہ کرب و بلا کا ہے
یادوں میں ہے اٹا ہؤا آنگن خیال کا
ماضی کے اس مزار پہ پہرہ ہوا کا ہے
فرقت کی اُس فصیل کو کس نے گرا دیا
اعجاز ہے اگر تو یہ کس کی دعا کا ہے
مَیں اس کے غم کی سیڑھیاں چڑھتا چلا
گیا
خطرہ نہ اب ملال غمِ ماسوا کا ہے
آنسو ازل بدوش ہے، شبنم ابد مقام
تُو کیوں اسیر چشمۂ آبِ بقا کا ہے
سقراط ہو، حُسیں ہو، عبداللطیف ہو
صدیوں پرانا سلسلہ اہلِ وفا کا ہے
مَیں ہی متاعِ عشق کا وارث ہوں، تُو
نہیں
اے معترض! یہ فیصلہ میرے خدا کا ہے
کچھ میرے کام آ گیا میرا عذابِ دید
کچھ ازدحامِ حسن بھی مضطرؔ! بلا کا
ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں