147۔ تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحب!

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ225۔226

147۔ تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحب!

تم نہ ٹالے سے بھی ٹلے صاحب!
کیوں مری آگ میں جلے صاحب!
مَیں بُرا، تم ہو گر بھلے صاحب!
میرے ہمراہ کیوں چلے صاحب!
آپ کو کیا خبر کہ دھوپ ہے کیا
آپ آئے ہیں دن ڈھلے صاحب!
چھین کر چین ہم فقیروں کا
اب اکیلے کہاں چلے صاحب!
تم کو پروا نہیں ہے اپنی بھی
تم بھی ہو ایک منچلے صاحب!
تم بھی تھے جل رہے ہمارے ساتھ
ہم اکیلے نہیں جلے صاحب!
دار سے یار تک پہنچنے کے
اور کتنے ہیں مرحلے صاحب!
مسئلہ تھا تو جب بھی دل کا تھا
اب بھی دل کے ہیں مسئلے صاحب!
ایک دو روز کی نہیں ہے بات
جلتے جلتے ہی گھر جلے صاحب!
خون آلودہ زرد چہروں پر
خاک بھی اب کوئی ملے صاحب!
ان کو سکھلائیے گا استعمال
لفظ ہیں کچھ برے بھلے صاحب!
ان کی پہچان ہے فقط خوشبو
لفظ گورے نہ سانولے صاحب!
بات ہو مختصر، ارادہ نیک
بول بھی ہوں بھلے بھلے صاحب!
حسن و احسان، لطف و جود و کرم
اس حسیں کے ہیں مشغلے صاحب!
جسم اس کا ہے، جان اس کی ہے
اس کے ٹکڑوں پہ ہیں پلے صاحب!
ہم نشیں کب کے جا چکے مضطرؔ!
لیجیے! ہم بھی اب چلے صاحب!
(مارچ،١٩٩٥)
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں