114۔ کبھی بہار کو ترسے، کبھی خزاں سے ڈرے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ181

114۔ کبھی بہار کو ترسے، کبھی خزاں سے ڈرے

کبھی بہار کو ترسے، کبھی خزاں سے ڈرے
یہ پھول کھلنے سے پہلے ہزار موت مرے
یہ اشک ہیں کہ حسینوں کے ہیں پرے کے
پرے
دُھلے دھلائے ہوئے بانورے بنے سنورے
نقاب پوش کھڑے ہیں صدا کی سرحد پر
فصیلِ شہرِ خموشاں ہے آہٹوں سے پرے
غروب ہو گئے چہرے، اُجڑ گئی محفل
نہ حسنِ جلوہ نمائے، نہ عشقِ خوش نظرے
صنم فروش، صنم گر، صنم پرست ہے دل
یہ اور بات ہے کہتے ہوئے زباں سے ڈرے
کبھی جو عہدِ گزشتہ کو لوٹ کر دیکھا
دل و نگاہ نے کیا کیا نہ اس میں رنگ
بھرے
اِنھی کے فیض سے قائم ہے زندگی کی بہار
خدا کرے کہ رہیں زندگی کے زخم ہرے
خدا کرے کہ مری یاد بھول جائے اُسے
مَیں اُس کو بھول سکوں، یہ کبھی خدا
نہ کرے
پھرا کرے ہے اکیلا اُداس کیوں مضطرؔ!
نہ مسکرائے، نہ بولے کبھی، نہ آہ بھرے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں