76۔ نذرِ غالب۔ بصد ادب اور معذرت

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ131۔132

76۔ نذرِ غالب۔ بصد ادب اور معذرت

مَیں خطا کار بھی تھا، لائقِ تعزیر
بھی تھا
تُو وہ سورج جو زمینوں سے بغلگیر بھی
تھا
دُور سے برف کے تودے کی طرح یخ بستہ
پاس سے جلتی ہوئی آگ کی تصویر بھی تھا
اے نہ بھولے سے کبھی خواب میں آنے والے!
تُو مرا خواب بھی تھا، خواب کی تعبیر
بھی تھا
تھے گلوگیر نہ تنہا غمِ جاں کے بندھن
گیسوئے یار ترا حلقۂ زنجیر بھی تھا
طائرِ سدرہ نشیں بر سرِ شاخِ الہام
رات کے پچھلے پہر مائلِ تقریر بھی تھا
نیلگوں نتھرے ہوئے گہرے سمندر کی طرح
جتنا شفّاف تھا وہ اتنا ہی گھمبیر بھی
تھا
عشق میں اس کے ملوّث تھے سبھی چھوٹے
بڑے
ہر کفِ دست پہ یہ ماجرا تحریر بھی تھا
اس کے سو چہرے تھے، ہر چہرے کے لاکھوں
منظر
ایک ہی وقت میں وہ رانجھا بھی تھا،
ہیر بھی تھا
کرسیاں کتنی ہی خالی تھیں سرِ بزمِ
سخن
یوں تو غالبؔ بھی تھا، اقبالؔ بھی تھا،
میرؔ بھی تھا
یوں تو ہونے کو وہ خاموش تھا لیکن مضطرؔ!
خوش بھی تھا، تیرے چلے جانے سے دلگیر
بھی تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں