62۔ کشتۂ تیغِ انا لگتا ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ100

62۔ کشتۂ تیغِ انا لگتا ہے

کشتۂ تیغِ انا لگتا ہے
واعظِ شہر خدا لگتا ہے
کوئی چہرہ نہیں لگتا چہرہ
آئینہ ٹوٹ گیا لگتا ہے
اس کے اندر ہے بلا کی وسعت
یہ کھلا شہر کھلا لگتا ہے
پھر کہیں سوچ کے سنّاٹے میں
برگِ آواز گرا لگتا ہے
پھر پھرا کر وہیں آ جاتا ہے
وقت گنبد کی صدا لگتا ہے
یا اخی کہہ کے بلاتے ہیں لوگ
کوہِ غم کوہِ ندا لگتا ہے
ماہ لگتا ہے ترا دستِ دعا
مہر نقشِ کفِ پا لگتا ہے
تو اگر بول رہا ہو پیارے!
"کوئی بولے تو برا لگتا ہے”٭
باغِ جنت سے نکلنے والا
راستہ بھول گیا لگتا ہے
مجھ سے ہمدردی جتانے والے!
تو مرا کون ہے، کیا لگتا ہے
جب ہوا چلتی ہے ٹھنڈی مضطرؔ!
شہر دیوار سے جا لگتا ہے
٭…محترمی جناب احمدندیم قاسمی مرحوم
کا مشہور شعر ہے     ۔
اتنا مانوس ہوں سنّاٹے سے   کوئی
بولے تو   ُبرا   لگتا ہے
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں