56۔ وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا

اشکوں کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ91

56۔
وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا

وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا
عشق تھا اور غائبانہ تھا
جس حسیں سے تمھیں محبت تھی
اس سے اپنا بھی عاشقانہ تھا
وہ کہیں دل کے پار رہتا تھا
وہ فقط دل کا واہمہ نہ تھا
اس کی ہر ایک سے لڑائی تھی
اس کا ہر اک سے دوستانہ تھا
اس کے آنے پہ کس لیے ہو خفا
اس نے آخر کبھی تو آنا تھا
اس میں انوار تھے خدائی کے
ہم نے مانا کہ وہ خدا نہ تھا
وہ اسی کا تھا خاص بھیجا ہؤا
اس کا آنا خدا کا آنا تھا
وہ شجر تھا گھنا محبت کا
اس کے سائے میں بیٹھ جانا تھا
بھول کر بھی نہ اس کو بھول سکے
یہ تعلق بہت پرانا تھا
معتکف تھے قفس میں ہم مضطرؔ!
کہیں آنا کہیں نہ جانا تھا
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں