55۔ جاں بکف اشک بجام آئے گی

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ89۔90

55۔
جاں بکف اشک بجام آئے گی

جاں بکف اشک بجام آئے گی
نالہ کرتی ہوئی شام آئے گی
دربدر روتی پھرے گی خلقت
کوئی تدبیر نہ کام آئے گی
شور رک جائے گا آوازوں کا
اک صدا بر سرِ عام آئے گی
سائے چھپ جائیں گے دیواروں میں
منزلِ ماہِ تمام آئے گی
داغ در داغ جلیں گے سینے
یاد یاروں کی مدام آئے گی
عمر بھر دل کے گلی کوچوں سے
اک صدا نام بنام آئے گی
پھر سرِ دار ہنسے گا منصور
زندگی پھر کسی کام آئے گی
پھر وہی جشنِ شہیداں ہو گا
زندگی بہرِ سلام آئے گی
دن چڑھے نکلیں گے راہی گھر سے
دل کے چوراہے میں شام آئے گی
شب گزر جائے گی آخر مضطرؔ!
صبحِ آہستہ خرام آئے گی
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں