53۔ اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے

اشکوں
کے چراغ ایڈیشن 2011  صفحہ83۔84

53۔ اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے

اشکوں نے دل کی دیوار گرا دی ہے
گھومنے پھرنے کی اِمشب آزادی ہے
کس نے زخموں کی زنجیر ہلا دی ہے
درباں! دیکھ کوئی باہر فریادی ہے
پھول نے ہنس کر بگڑی بات بنا دی ہے
جینا بھی شادی، مرنا بھی شادی ہے
دشت نے چاہا تھا اس کو تسلیم کرے
قیس نے اس کی یہ خواہش ٹھکرا دی ہے
جس کی خاطر رو رو جی ہلکان کیا
عہد نے وہ آواز ہمیں لوٹا دی ہے
فرصت ہو تو اب اس کی پہچان کرو
ہم نے پانی پر تصویر بنا دی ہے
دل کی دِلّی کے کھنڈرات ہیں مقتل تک
اس سے پرے آبادی ہی آبادی ہے
کل کو آج کے آئینے میں دیکھا ہے
حال نے ماضی کو اِمسال سزا دی ہے
آنکھ سمندر، سینہ اک پیاسا صحرا
ان دونوں کا روگ بہت بنیادی ہے
’’ ّ سچی باتوں‘‘ سے ناحق بدنام ہؤا
عشق بھی عبدالماجد دریابادی ہے
مضطرؔ! تم بھی جاؤنا٭؎ اس سے مل آؤ
سچائی اس دھرتی کی شہزادی ہے
٭…صوتی مجبوری
چوہدری محمد علی مضطرؔعارفی

اپنا تبصرہ بھیجیں